Column

قومی وسائل اور بے حِس حکمران

تحریر : چودھری راحیل جہانگیر

اخبار بینی کے دوران ایک خبر نظر سے گزری جس نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ وہ خبر یہ تھی کہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، گورنرز، وزیر اعلیٰ، صدر اور وزیر اعظم کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان ایک غریب اور بھاری قرضوں کے نیچے دبا مقروض ملک ہے جس کی معیشت ڈانواں ڈول ہے۔ مہنگائی اور افراطِ زر نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہمارے حکمرانوں کو قومی جذبے کے تحت بغیر تنخواہوں اور مراعات کے ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے لیکن وہ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کے لیے ہلکان ہورہے ہیں۔ نہ صرف ہلکان ہو رہے ہیں بلکہ محمود و ایاز ( حکمران اور اپوزیشن) ایک صف میں کھڑے ہیں۔
شنید ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی کڑی شرائط کے تحت بجلی گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرنا مجبوری ہے ۔ اسی وجہ سے روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کو پر لگے ہوئے ہیں۔ جب سے ن لیگ کی حکومت معرض وجود میں آئی ہے حقیقت میں عام آدمی سکھ کا سانس لینا بھول گیا ہے۔ درجنوں ڈائریکٹ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے عوام کی زندگی آخری ہچکیاں لے رہی ہے لیکن حکمرانوں کو کسی کی پکار اور چیخیں سنائی نہیں دے رہیں۔ ملکی معیشت ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت بیرونی قرضوں پر چل رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں حکمران چاہتے ہیں کہ پاکستان کی تجارت بھی بڑھے، بیرون ملک رہنے والے زیادہ سے زرمبادلہ بھی بھیجیں اور بیرونی ممالک کے تاجر یہاں آکر سرمایہ کاری بھی کریں۔ وہ یہ سب اس لیے چاہتے ہیں کہ بقول ان کے انہیں ملک کے ساتھ پیار ہے۔
ملک کو سرمایہ کی ضرورت ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک بینکوں میں محفوظ رکھا ہے۔ ہمارے ملک کا سیاستدان اتنا امیر ہے کہ امریکی صدر بھی کیا ہوگا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آگیا۔ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے۔ ان کے بیٹے کو کینسر کا مرض لاحق ہوگیا۔ کینسر کا مرض انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہر سال مرنے والوں میں کینسر کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہارٹ اٹیک اور حادثات سے مرنے والوں کا نمبر آتا ہے۔ جس گھر میں کینسر کا مریض ہو اس گھر کی ساری جمع پونجی کاروبار اور آخر میں گھر بار اس کے علاج کی نظر ہو جاتا ہے۔ گھر والے سٹرک پر آجاتے ہیں۔ جوبائیڈن کا بیٹا ایک ریاست میں اٹارنی جنرل تھا۔ جوبائیڈن نے اپنی جمع پونجی بیٹے کے علاج پر خرچ کر ڈالی اور آخر میں اپنا آبائی گھر بیچنے پر مجبور ہو گئے۔ اوبامہ اس وقت امریکہ کے صدر تھے۔ جب انہیں حالات کا علم ہوا تو انہوں نے جوبائیڈن کو گھر بیچنے سے منع کرتے ہوئے ان کے بیٹے کے علاج کا بندوبست کر دیا۔ جوبائیڈن کا بیٹا اس مرض کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گیا۔ امریکہ کا ایک طاقتور شخص اپنے بیٹے کو کینسر سے نہ بچا سکا کیونکہ اس کے پاس بیٹے کے علاج کے لیے پیسے نہیں تھے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ ایک مقروض ملک کے حکمران بیرون ملک ڈاکٹروں سے علاج کراتے ہیں اور علاج کا بل قومی خزانے سے ادا ہوتا ہے۔ بیرون ملک ڈاکٹروں سے چیک اپ کرانے کے لیے پی آئی اے کا خصوصی مسافر طیارہ انہیں لے کر جاتا ہے اور واپسی تک وہیں روک دیا جاتا ہے، جس سے لاکھوں ڈالر روزانہ کا نقصان ہوتا ہے۔ حکمرانوں کا ناشتہ لانے کے لیے جہاز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک حکمران دفتر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے ایئر بس اور ہیلی کاپٹر کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ وی آئی پی کمروں میں ان کا علاج ہوتا ہے۔ علاج و معالجہ کا بل سرکاری خزانے سے ادا ہوتا ہے۔ یہاں کسی حکمران کو ہچکی آ جائے تو پورا محکمہ صحت پریشان ہو جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ جوبائیڈن امریکہ کا نائب صدر تھا۔
اس کے بیٹے کی بیماری کی تشہیر ہوئی نہ امریکہ میڈیا نے اس کی موت پر لمبے چوڑے کالم لکھے۔ جوبائیڈن نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیا نہ اس کے بیٹے کی وفات پر سرکاری پرچم سرنگوں کرکے سوگ منایا گیا اور نہ ہی سرکاری تعطیل کی گئی۔ جوبائیڈن کی کہانی دردناک ہے، مگر یہی امریکی ترقی کا راز ہے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی پسماندگی کا ثبوت ہے۔ اس نے بیٹے کے علاج کے لیے اپنا اثر و رسوخ اور سرکاری وسائل کو استعمال نہیں کیا۔ ہمارے ہاں جوبائیڈن سے زیادہ با اختیار تو یونین کونسل کا چیئرمین ہے۔ وہ چاہے تو کیا نہیں ہو سکتا۔ جوبائیڈن کا سر تو ہمارے حکمرانوں کو دیکھ کر جھک جانا چاہیے، جو بنی گالا، رائے ونڈ اور نوڈیرو کے محلات میں بستے ہیں۔ انگلستان، دبئی اور امریکہ میں جائیدادیں رکھتے ہیں۔ علاج معالجہ سے لے کر شاہی پروٹوکول کا خرچہ سرکاری وسائل سے کرتے ہیں۔ جب چاہا بنکوں سے قرض لیا۔ جب چاہا معاف کروا لیا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو شخص بجلی، گیس اور فون کا بل ادا کر سکتا ہے اس کے لیے یہ سب فری ہے۔ جو ادا نہیں کر سکتے ان کی زندگی اجیرن بنادی جاتی ہے۔ اگر بحیثیت قوم ہماری سوچ اسی سیاسی تنزلی کا شکار رہی تو پھر ہمیں بااصول اور انصاف پسند ملک و قوم کا درد رکھنے والے حکمران کہاں سے ملیں گے؟۔

چودھری راحیل جہانگیر

جواب دیں

Back to top button