ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( دسواں حصہ )

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حال ہی میں جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس کا مقصد قیدیوں کو اشیائے ضرورت ارزاں نرخوں پر فراہم کرنا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹور کی تجویز بہت پرانی تھی لیکن اس حکومت کے دور میں باقاعدہ یوٹیلیٹی سٹورز کھولے جا رہے ہیں۔ جن جیلوں میں کنٹین کنٹریکٹرز قیدیوں کو اشیاء کی فراہمی کر رہے ہیں وہ بازار میں سب سے کم درجہ کی اشیاء ہوتی ہیں۔ مروجہ طریقہ کار کے مطابق قیدیوں کے ملاقاتیوں نے اپنے قیدی کو کوئی چیز بھیجنی ہو وہ جیل سے باہر کینٹین کنٹریکٹر یا اس کے عملہ کو نقد رقم دے کر چیزیں لکھوا دیتے ہیں جس کے بعد مطلوبہ اشیاء کنٹین کنٹریکٹر جیل میں بھیج دیتا ہے۔ شام کے اوقات میں جب جیل بند ہونے کے قریب ہوتی ہے کنٹین کنٹریکٹر کی سامان سے لدی گاڑی جیل میں داخل ہوتی ہے جس کے بعد سامان پر قیدیوں کے نام اور بیرکس پہلے سے لکھی ہوتی ہیں قیدیوں کے ذریعے ہر قیدی کو بھیجوا دی جاتیں ہیں۔ گویا اس لحاظ سے قیدیوں کو سامان بھیجنے کا طریقہ کار درست ہے۔ قیدیوں کو فراہم کی جاتی والی اشیاء مہنگی ترین اور کم کوالٹی کی ہوتی ہیں تاہم مجبور اور بے بس قیدی انہی پر گزارا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ بلاشبہ سرکاری طور پر قیدیوں کو تینوں اوقات میں کھانا سرکاری طور پر فراہم کیا جاتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کوئی قیدی اپنے طور پر روٹی پکاتا ہو ورنہ لنگر سے ملنے والی روٹی پر سبھی گزارز کرتے ہیں۔ جیلوں میں ہزاروں کی تعداد میں قیدیوں کی موجودگی کی صورت میں لنگر پر کئی کئی گھنٹے پہلے روٹی پکا لی جاتی ہے لہذا جب قیدیوں کو ملتی ہے وہ کافی حد تک ٹھنڈی ہو چکی ہوتی ہے۔ اگر چند گھنٹے مزید روٹی کو استعمال نہ کیا جائے تو روٹی کو اٹھایا جائے تو اس کے کئی ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں جب چودھری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ تھے نے قیدیوں کے کھانے کا اسکیل بڑھا دیا تھا جس کے بعد تمام قیدیوں کو ایک ہی طرح کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے خواہ کوئی قیدی بی کلاس کا کیوں نہ ہو ورنہ پہلے بی کلاس کے قیدیوں کو کچا راشن ملتا تھا۔ بی کلاس کے ہر قیدی کو ایک قیدی مشقت کے لئے دیا جاتا ہے۔ جیل مینوئل میں پانچ قیدیوں کے لئے ایک مشقتی مقرر ہے سب اچھا کریں تو سب کو ایک ایک مشقتی مل جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے قیدیوں کو ہفتہ میں کئی روز چکن دیا جاتا ہے ورنہ سبزی اور دالیں تو پہلے بھی مہیا کی جاتی تھیں۔ جیلوں قیدی لنگر خانوں میں پکی دال بڑے شوق سے کھاتے ہیں کئی قیدی لنگر کی دال کو دوبارہ تڑکا لگا کر کھاتے ہیں۔ لنگر خانوں میں چائے کے لئے بھینس کا دودھ استعمال ہوتا ہے۔ کئی سپرنٹنڈنٹ جیل اپنی بھینسوں کو دودھ لنگر خانوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ لنگر خانوں کا انچارج اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ہوتا ہے جس کے ماتحت ایک ہیڈ وارڈر ہوتا ہے۔ عجیب تماشا ہے لنگر خانوں پر تعینات افسران کو مبینہ طور پر طے شدہ نذرانہ دے دیا جاتا ہے اس کے علاوہ وہ لنگر خانے کے انچارج ہیڈ وارڈر کے فرائض میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ لنگر خانوں میں متعین ہیڈ وارڈرز انچارج سب اچھے کی جو رقم جمع ہوتی ہے وہ بالا افسران میں تقسیم کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انتظامی طور پر لنگرجیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو کے انتظامی کنٹرول میں ہوتا ہے لیکن ہیڈ وارڈر انچارج کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جوڈیشل کا طے شدہ سب اچھا بھی دینا ہوتا ہے۔ اللہ گواہ ہے یہ ناچیز اپنے ذاتی مشاہدے میں آنی والی باتوں کو قارئین کی معلومات کے لئے لکھ رہا ہے۔ ہمیں کسی جیل افسر یا اہل کار سے کوئی پرخاش نہیں ڈیڑھ عشرے کے دوران جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ عوام کے علم میں لانا ضروری ہے۔ جہاں تک جیلوں میں کنٹرول کی بات ہے قیدی حوالاتی کی کیا مجال وہ کسی افسر کا بن بلائے سامنا کرئے۔ قیدیوں اور حوالاتیوں کو بیرکس میں رہنے کے لئے جگہ کی نایابی جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کوئی کھاتے پیتے گھرانے کا کوئی فرد جیل آجائے اسے بیرک میں خوش آمدید کہنے والے بہت سے ڈیرے دار قیدی ہوتے ہیں۔ اگر اس طرح کا کوئی شخص جیل آجائے تو ڈھیوڑی سے اندر آتے ہی اسے وصول کرنے والے جیل ملازمین اور قیدی موجود ہوتے ہیں۔ کوئی مجھ ایسا غریب جیل آجائے تو اس کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ ایسے حوالاتیوں اور قیدیوں کو قیام کے لئے بیرکس میں موٹر وے پر رہنا پڑتا ہے۔اس وقت پنجاب کے جیلوں کی صورت حال بہت خراب ہے ۔جن جیلوں میں دوہزار سے کم قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے وہاں کئی ہزار قیدی رہ رہے ہیں۔ جن ڈسٹرکٹ جیلوں میں سات آٹھ سو قیدیوں کی گنجائش ہے ان میں آج کل پی ٹی آئی کے ورکرز کی آمد سے تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے جیلوں میں اصلاحات لانے کے لئے جو کمیٹی قائم کی ہے اسے پہلے اقدام کے طور پر نئی جیلوں کی فوری تعمیر کی تجویز دینی چاہیے جس سے جیلوں میں آنے والے ملزمان اور مجرمان دونوں کے لئے آسانی کے ساتھ جیل میں انتظامی معاملات میں دشواری ختم ہو سکتی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ کئی برس سے جیل کی تعمیر جاری ہے جو ابھی تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی ہے۔ اگرچہ صوبے کے بعض اضلاع لیہ، حافظ آباد، شجاع آباد، وہاڑی، بھکر اور دیگر اضلاع میں نئی جیلیں تعمیر کی گئی ہیں تاہم اس کے باوجود قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر پنجاب میں جیلوں کا فقدان ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے راولپنڈی میں کسی خاتون کو عمر قید یا دس برس تک کی سزا ہو جائے تو سینٹرل جیل اڈیالہ میں جگہ کی کمی کے باعث انہیں ملتان کی سنٹرل جیل میں بھیجا جاتا ہے۔ سوال ہے راولپنڈی یا کے پی کے کی کوئی خاتون سزا یاب ہوگی تو اس کے اہل خانہ کو ملاقات کے لئے راولپنڈی کی بجائے ملتان کی طویل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ قیدیوں کو اپنی ضلعی جیلوں میں آنے کے لئے ان کے لواحقین کو صوبائی دارالحکومت لاہور کے کئی کئی چکر لگانا پڑتے ہیں۔ جیلوں میں گنجائش کم ہونے کے باعث قیدیوں کے اہل خانہ کو اپنے قیدی ضلعی جیل میں لانے کے لئے مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ ( جاری)

جواب دیں

Back to top button