Column

نک دا کوکا اور غریب کا کھوکھا

صورتحال
سیدہ عنبرین
ماہ دسمبر نے وطن کے سینے پر دو گھائو لگائے ہیں، ایک کو 53برس، دوسرے کو 10برس بیت گئے، دونوں گھائو ابھی تازہ ہیں اور ہمیشہ تازہ رہیں گے، ان پر زبانی کلامی بہت مرہم رکھے جاتے ہیں، عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ اب تو شہیدوں کو بھی بانٹ لیا گیا ہے، قوم کہتی ہے سرحدوں کی حفاظت کرنے والے، اے پی ایس سکول میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے، تحریک نظام مصطفیٰ میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے، ماڈل ٹائون اور اسلام آباد میں جام شہادت نوش کرنے والے سب ہمارے شہید ہیں۔ سرکار کہتی ہے یوں نہیں۔ پس اس برس 16دسمبر کو پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا، وہ کبھی سوچا نہ جا سکتا تھا، شہیدوں کی سرکاری صف بندی میں طلباء کیلئے فاتحہ اور دعا ہو گئی، دیگر کیلئے ممنوع قرار دے دی گئی، پھر اسی غم میں ڈوبی پنجاب اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا اور لمحوں میں منظور بھی ہو گیا، یہ بل ارکان صوبائی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل تھا، جس کے تحت تنخواہوں میں 5سو فیصد سے لے کر 9 سو فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔76ہزار سے شروع ہونے والی تنخواہیں 9لاکھ تک گئیں۔ بتایا گیا کہ پرانی تنخواہیں بہت کم تھیں، لہٰذا کم تنخواہوں میں گزر بسر کرنے والے مصیبت زدہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اس قدر اضافہ ضروری سمجھا گیا، یہ وہ دکھی طبقہ ہے، جو اپنے الیکشن پر کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ایوانوں میں پہنچتا ہے۔ 90 فیصد ارکان اسمبلی کے ذاتی ایسے کاروبار ہیں جو انہیں کروڑوں روپے کما کر دیتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جن کے ڈیروں پر خرچ ان کی ادا کردہ تنخواہوں سے بہت زیادہ ہے، بعض ایسے خدا ترس بھی ہیں جو اپنی سالانہ تنخواہوں سے زیادہ اپنی جیب سے ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے ہیں، لیکن سیاست کو سبھی عبادت کا درجہ دیتے ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر عبادت کی تنخواہ کیسی، عبادت کا اجر تو خدا نے دینا ہے۔
اے پی ایس میں شہید ہونے والے طلباء کے والدین کو ہر برس یہ کہہ کر تسلی دی جاتی ہے کہ آپ کی قربانی اللہ کے حضور پیش ہو چکی، آپ کے بچے جنت میں ہیں اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کسی نے درست کہا ’’ جس تن لاگے وہی جانے‘‘، جن کے جگر گوشے ان کے سامنے لہو میں لت پت آئے کوئی ان سے پوچھے، وہ منظر ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوا یا ابھی تک تازہ ہے۔ والدین، بہن بھائی یہ دکھ لاکھ بھلانا چاہیں بھلا نہ پائیں گے۔ حکومت انہیں شہید کو کہتی ہے، شہید تو مانتی ہے لیکن 10برس ہو چکے ان دکھی والدین کو شہید پیکیج دینے کی طرف نہیں آئی۔
پارلیمانی سیکرٹری ہوں یا وزرائ، سرکاری افسر ہوں یا پروٹوکول کی گاڑیاں، ان کی خریداری کیلئے ہر زمانے میں بہت فنڈ موجود ہوتے ہیں، کہیں کوئی کمی نہیں ہوتی، کوئی آئی ایم ایف، کوئی ورلڈ بینک اس خرچ سے منع نہیں کرتا، لیکن بات آئے عام آدمی کو ریلیف دینے کی تو بتایا جاتا ہے پابندیاں ہیں۔ گزشتہ 4ماہ میں گیس کی قیمتوں میں 8سو گنا اضافہ کیا گیا، آج پھر خبر آتی ہے کہ مزید اضافہ منظور کر لیا گیا ہے۔ سرکاری چابکدستی ملاحظہ فرمائیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کئی ماہ پہلے اس لئے کیا گیا کہ سردیوں میں گیس نہ ملنے، گیس نہ بکنے کی صورت میں بھی چوکھا منافع کما لیا جائے۔
قرب الختم سال میں متعدد مرتبہ اہتمام سے خبریں جاری کرائی گئیں کہ سٹاک ایکسچینج نے ریکارڈ توڑ دیئے، انڈیکس زمین سے آسمان پر پہنچ گیا، اس کا فائدہ عام آدمی کو کیا پہنچا؟، کیا روز مرہ استعمال کی کسی چیز کی قیمت کم ہوئی، کیا کوئی نا خالص چیز اس کے جادو سے خالص ہو گئی، کچھ بھی تو نہ ہوا، سرمایہ داروں اور سٹہ بازوں کے کھیل ہیں، ان کے منافع سے عام آدمی کو اس ایک دھیلے کا فائدہ نہیں ہوتا جس کا ذکر کرتے ہوئے جناب وزیراعظم اکثر کہا کرتے تھے میں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی، اگر ثابت ہو جائے تو ہمیشہ کیلئے سیاست چھوڑ دوں گا۔ ان کی یہ بات درست ہے انہوں نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔
اب نئی کہانی مارکیٹ میں پھینکی گئی ہے، کرنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، اس کی وجہ حکومتی پالیسیاں بتائی جاتی ہیں ۔ سال میں دوسری مرتبہ کرنٹ اکائونٹ سرپلس بتایا جا رہا ہے، اگر ہے بھی تو صرف کہیں کاغذوں میں ہو گا، زمین پر عام آدمی کی زندگی پر اس کا کوئی اثر نہیں نظر آتا۔
غیر ملکی انویسٹمنٹ کے پاکستان آنے کے بڑے چرچے ہیں، گزشتہ اڑھائی برس سے یہی حکومت ہے، ڈیڑھ برس پی ڈی ایم چھتر چھائوں تھی، اب متنازعہ مینڈیٹ ہے، مگر کوئی نیا کارخانہ اس دوران نہیں لگا، جس سے کسی کو کئی روزگار ملا ہے، اب تک کی بتائی گئی انویسٹمنٹ اب تک صرف ایم او یوز تک محدود ہے، یعنی افہام و تفہیم ہوئی ہے کہ ایسا کریں گے، کب کریں گے یہ کوئی نہیں جانتا۔
غیر ملکی انویسٹمنٹ کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان میں کوئی بڑا پراجیکٹ لگے، اس سے تیار کردہ مصنوعات دنیا کے دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کی جائیں، ایسی انویسٹمنٹ کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ کوئی کمپنی پاکستان میں ایک سو پٹرول پمپ لگا لے، یوں ایک ہزار افراد کو نوکریاں دے کر وہ کمپنی کئی ہزار ارب روپے سالانہ کما کر ملک سے باہر لے جاتی ہے، اسے اپنی کمائی ڈالروں کی شکل میں باہر لے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی، یوں یہ کمپنیاں انویسٹمنٹ کے نام پر پاکستانیوں کی کھال تک اتار کر لے جاتی ہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ کسی زمانے میں پاکستان کو انویسٹر کی جنت کہا جاتا تھا، اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ یہاں لوٹ مار کی کھلی اجازت ہوتی ہے، زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی کوئی حد نہیں ہوتی، ضروری ہے کہ اس کی حد بندی کی جائے، منافع کا ایک حصہ اسی ملک میں دوبارہ انویسٹ کرنا ضروری کیا جائے، جس طرح بعض عرب ممالک میں کبھی قانون تھا، عراق کی مثال دی جا سکتی ہے، وہاں تنخواہ دار طبقہ بھی اپنی 40فیصد تنخواہ سے زیادہ عراق سے باہر نہیں بھیج سکتا تھا، اس پر لازم تھا کہ 60فیصد تنخواہ وہیں رہ کر خرچ کرے۔
عرصہ دراز سے راندہ درگاہ نظر آنے والے رائے ونڈ خاندان کے اہم فرد جناب کیپٹن صفدر کا ایک تقریب سے خطاب اور اس کے بعض جملے بہت مقبول ہوئے ہیں، انہوں نے عام آدمی کی حالت زار کی کمال ترجمانی کی ہے، وہ کہتے ہیں جناب نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بنے، ان کے بھائی جناب شہباز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ مریم نواز صاحبہ آدھے پاکستان یعنی پنجاب کی وزیراعلیٰ بن گئی ہیں۔ ہمارے ہاتھ کیا آیا، پھر خود ہی کہتے ہیں، ہمارے ہاتھ صرف ’’ نک دا کوکا‘‘ آیا ہے۔ نک دا کوکا بھی جناب کیپٹن صفدر کے حصے میں آیا ہے، غریب آدمی کا تو رزق کمانی کا وسیلہ ’’ کھوکھا‘‘ بھی اجڑ گیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button