Column

یونان سمندر میں انسانی سنہرے خوابوں کی غرقی

تحریر: :امتیاز یٰسین
جنوبی یونان کے جزیرہ کریٹ کے قریب غیر قانونی تارکین کی کشتی اُلٹنے سے 40پاکستانیوں کے ڈوبنے کی اطلاعات ہیں، جبکہ47پاکستانیوں کو زندہ ریسکیو کر لیا گیا۔ حادثہ کا شکار کشتی کے ڈوبنے کی وجوہات یا معلومات منظر عام پر تا حال نہ آ سکی ہیں۔ تاہم متعدد افراد ابھی تک لا پتہ بتائے جا رہے ہیں۔ یونان کے جریرے مختلف ریاستوں کی سرحدی علاقوں سے جڑنے کی وجہ سے ماضی میں بھی روز گار یا بہتر مستقبل کی خاطر ہجرت کر کے غیر قانونی طور پر یونان کے سمندری رستے سے یورپ، لیبیا، ترکی ایران جانے والوں کے کشتی الٹنے کے ماضی میں متعدد حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ جس میں ماضی قریب 2023ء میں خطر ناک سفر کے دوران چار سو پاکستانیوں سمیت 800مسافروں بھری کشتی الٹنے سے سات سو مسافر ڈوب گئے، جس میں سیکڑوں پاکستانیوں کی اموات کا افسوس ناک واقعہ کے زخم ابھی تازہ ہی تھے اور حکومت کے ایسے سماج دشمن انسانی سمگلروں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی باز گشت سنائی ہی دے رہی تھی کہ اور واقعہ نمو دار ہو گیا۔ دنیا بھر کے مکینوں کا یونان کے قریب بحیرہ روم جو یورپ ،خلیجی ریاستوں یا دنیا کے خطوں میں غیر قانونی طور پر آنے جانے والے تارکین وطن کے لئے قدرے آسان سمندری رستہ متصور ہوتا ہے۔ طویل سفر کے باعث عموماً غیر معیاری جہازوں، کئی کئی منزلہ کشتیوں میں فنی خرابیوں اور لوڈیا دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں اور سمندر مسافروں کے خوابوں کا مدفن بن جاتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہزاروں شہری اپنے بہتر روز گار آرزوئوں کی تکمیل میں اس سمندر میں غرق ہو چکے ہیں۔ ان واقعات سے بچنے کے لئے ماضی سے یونانی حکومت کی طرف سے ایسی غیر قانونی آمد و رفت روکنے کے لئے ساحلی راستوں کے ساتھ ساتھ سمندر میں تیرتی ہوئی باڑ لگانے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے میگا منصوبے کا اعلان بھی کر رکھا ہے، جو بھی تک شروع نہ ہو سکا ہے۔ جہاں ایسے واقعات کے انسداد اور ایجنٹوں کی سرکوبی کے لئے اقدامات کو فوری عملی ضرورت ہے تو وہاں ایسے عوامل پر بھی نظر دوڑانے اور اصلاحات کی ضرورت ہے جو ان واقعات کا موجب بن رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بے روزی اور غربت کی شرح ایک معتدل حد سے کراس ہو چکی ہے۔ روز گار کے فقدان سے تنگی حالات سے عاجز آئے شہری ایک خواب لیکر خطرات جاننے کے باوجود ایسے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق غربت میں گزشتہ سال کے مقابلہ زیادتی 40.2سے بڑھ کر 40.5ہوئی، جبکہ افرادی قوت کی آمدنی میں کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں ہر سال نئے سولہ لاکھ نوجوانوں کے لئے روز گار کے مواقع ناپید ہو رہے ہیں۔ عالمی بینک پاکستان میں غربت کی شرح 39.3فیصد بتاتا ہے جبکہ بائیس فیصد خطِ غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق خطِ غربت کی لکیر کی زندگی کا معانی انسان کا دو وقت کی روٹی کھانے کی بھی استطاعت نہ رکھنا۔ جبکہ اقوام متحدہ اور عالمی بنک کی وضاحت کے مطابق انسان کی روزانہ آمدنی 2.15امریکی ڈالر یعنی پاکستانی چھ سو روپئے سے کم ہے تو وہ معاشی اعتبار سے اس حد سے نیچے ہیں ۔یوں دیکھا جائے ایک مزدور جو چھ سات سو دیہاڑی لیکر اپنے پورے کنبے کی کفالت کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ ایسی افرادی قوت پاکستان کے مختلف شعبوں میں کروڑوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خودکشیوں کی رفتار تیز ہونی کے نوّے فیصد واقعات کے محرکات کا ڈائریکٹ تعلق معاشی بد حالی سے ہے۔ یہ سب کچھ حکومتوں کی ناقص معاشی پالیسیوں، غیر مستحکم سیاسی صورتِ حال اور بد عنوانیوں، معاشی ناہمواری واقعات کی وقوع پذیری کا اثر ہے یہ وہ عوامل ہیں جو بے روز گار نوجوانوں اور افراد کو ایسے خطر ناک سفر پر مجبور کرتے ہیں۔ حکومت کا شہریوں کو باعزت روز گار اور زندگی میں سہولیات کے حوالہ سے وسیع تر اقدامات و اصلاحات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button