Column

مدارس ایکٹ بل: اختلاف علماء باعث رحمت یا باعث تقسیم؟

تحریر: واجد علی تونسوی
علماء کا اختلاف اسلامی معاشرت کا ایک اہم اور قابل غور پہلو ہے، جو فکری گہرائی اور اجتہادی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ یہ اختلافات ہمیشہ سے مسلمانوں کے لیے برکت اور ترقی کا ذریعہ بنے ہیں۔ ابتدائی اسلامی دور سے ہی علماء کے درمیان اختلافات موجود رہے ہیں، جنہیں ’’ اختلافِ الرائے‘‘ یا ’’ اجتہاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان اختلافات نے اسلام کو ایک وسیع اور جامع دین کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں تنوع، فکری آزادی اور سوچ کے مختلف زاویے پنپ سکتے ہیں۔ علماء کے یہ اختلافات برہمی یا دشمنی کا باعث نہیں بنتے، بلکہ تعمیری مباحثے اور بہتر حل تلاش کرنے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
پاکستان کی آزادی کے وقت بھی علماء کے درمیان اختلافات اجتہادی نوعیت کے تھے۔ ایک طرف کچھ علماء کا موقف تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے، تاکہ وہ اپنی دینی عبادات آزادی سے انجام دے سکیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کریں۔ دوسری طرف کچھ علماء کا خیال تھا کہ علیحدہ وطن سے مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچے گا اور غیر مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کی حالت مزید خراب ہو سکتی ہی۔ دونوں فریق اپنے اپنے دلائل میں مخلص اور حق پر تھے، لیکن ان کا نقطہ نظر مختلف تھا۔
آج کل مدارس ایکٹ بل کے حوالے سے بھی علماء کرام کے درمیان اختلاف دیکھنے کو مل رہا ہے، جو کہ درحقیقت اجتہادی اختلاف ہے۔ یہ بل مدارس کو وزارت تعلیم یا وزارت صنعت و تجارت سے منسلک کرنے کے حوالے سے ہے۔ دو بڑی جماعتیں اس معاملے پر مختلف نقطہ نظر رکھتی ہیں۔ ایک طرف وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے علماء ہیں، جن میں مولانا فضل الرحمان صاحب، مفتی عثمانی صاحب، اور حنیف جالندھری صاحب شامل ہیں۔ یہ جماعت چاہتی ہے کہ مدارس کو وزارت صنعت و تجارت کے تحت رکھا جائے، کیونکہ وہاں مدارس کی آزادی اور خودمختاری محفوظ رہے گی۔ دوسری جانب مجمع العلوم الاسلامیہ اور ان کے اتحادی بورڈز، جن کی قیادت جامعۃ الرشید کراچی کے رئیس مفتی عبدالرحیم صاحب کر رہے ہیں، کا موقف ہے کہ مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے، کیونکہ یہ تعلیمی ادارے ہیں اور انہیں تعلیمی نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔
یہ اختلاف اگرچہ اجتہادی اور حکمت پر مبنی ہے، لیکن میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ علماء کرام کے درمیان دوریاں پیدا کی جا سکیں۔ حال ہی میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی ایک تقریر نے اپنے جذباتی انداز میں کچھ باتیں کیں۔ تاہم، انہوں نے واضح طور پر کہا کہ علماء کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی تقریر کو غلط رنگ دینے کے باوجود مفتی عبدالرحیم صاحب نے نہایت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئی مولانا فضل الرحمان صاحب کو معاف کر دیا اور مولانا صاحب نے بھی اپنی کانفرنس میں وضاحت کی کہ علماء کے درمیان اتحاد قائم ہے اور کسی کو بھی اس میں دراڑ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بعد ازاں کچھ عناصر نے علماء کرام کے نام پر غیر تحقیقی اور نامکمل بیانات چلا کر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم مفتی رحیم اللہ صاحب اور مشہور اسکالر مفتی طارق مسعود صاحب کے بیانات کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، تاکہ ان کے نقطہ نظر کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ مگر انہوں واضح طور پر اپنی دوسری جماعت کا احترام کرتے ہوئے اپنے اپنے موقف کا اظہار کیا، جس کے بعد انتشار کا خوف دور ہوگیا۔
یہ اختلافات درحقیقت رحمت کا باعث ہے، کیونکہ ان سے مختلف آراء اور حل سامنے آتے ہیں۔ علماء کرام کو تقسیم کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، کیونکہ دونوں جماعتیں ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے اجتہادی نقطہ نظر پیش کر رہی ہیں۔ دونوں گروہوں نے تجویز دی ہے کہ جو مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہونا چاہیں، وہ وہاں رجسٹریشن کرا سکتے ہیں اور جو وزارت صنعت و تجارت کے تحت آنا چاہیں، ان کے لیے بھی راستہ کھلا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مصلحت شاید یہ ہے کہ مدارس کو دونوں وزارتوں کے ساتھ منسلک ہونے کا آپشن سامنے آ جائے، تاکہ مختلف نظریات رکھنے والے مدارس اپنی آزادی کے ساتھ کام کر سکیں۔ اس سلسلے میں ایک مسودہ تیار ہو چکا ہے، جو جلد پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے گا اور دونوں جماعتوں کے اتفاق سے علماء کرام کو تقسیم کرنے کی سازشوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام دینی مدارس کی حفاظت فرمائے، علماء کرام کے اتحاد کو برقرار رکھے اور مسلمانوں کو فرقہ واریت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

جواب دیں

Back to top button