کب تک!!!

محمد مبشر انوار
الجھی ڈور کا سرا ہاتھ آتا دکھائی نہیں دیتا کہ معاملات کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہے، ایک طرف مشرق وسطی جنگ کے شعلوں میں لپٹا نظر آتا ہے تو دوسری طرف روس نے یوکرین پر اپنے حملے تیز تر کر رکھے ہیں جبکہ تیسری طرف امریکہ میں ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے قریب ہے۔ ٹرمپ کا موقف انتہائی واضح ہے کہ ایک طرف وہ جنگوں کے خلاف ہے تو دوسری طرف وہ ہر صورت اسرائیلی مفادات کا تحفظ بھی کرنا چاہتا ہے تیسری طرف روس کی جانب سے نہ صرف یوکرین بلکہ یورپ تک خوف میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ۔ سب سے بنیادی نکتہ معیشت کا ہی کہ اس سب ہنگام میں امریکہ جس کی معیشت کا بڑا انحصار ہتھیاروں کی فروخت پر ہے، کس طرح کرہ ارض سے جنگ بندی کروا سکے گا؟ تسلیم کہ ٹرمپ اس ضمن میں پہلے ہی بھاری ٹیکسز کا اعلان کر چکا ہے اور اس سے بعید نہیں کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد بھی کروا دے لیکن اس کے جواب میں باقی دنیا بھی کسی صورت خاموش نہیں رہے گی اور بالخصوص چین اس کا جواب ترکی بہ ترکی دے گا، اس صورت میں امریکی معیشت سنبھلے گی یا مزید ڈگمگا جائیگی، اس کا حتمی طور پر جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح کئی ایک دیگر قوانین میں بھی ختم کرنے کا عندیہ ٹرمپ دے چکا ہے جس میں شہریت کے حوالے سے قانون ختم کرنے کا اس کا موقف انتہائی واضح ہے اور وہ اس قانون کو ختم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ بہرطور یہ امریکی اندرونی معاملات ہو سکتے ہیں اور امریکی اس حوالے سے فیصلے کرنے میں بااختیار ہیں کہ وہ عوامی حمایت سے برسراقتدار آئے ہیں لہذا ان کی عوامی حمایت کے کھلے بندوں خلاف جانے کی ہمت نہیں ہو گی اور ریاست نئی انتظامیہ کو اپنے منشور کے مطابق روبہ کار آنے سے نہیں روک پائے گی۔ اصل مسئلہ مشرق وسطی میں جاری جنگوں کے حوالے سے ہے کہ شام میں ہونے والی تبدیلی کے نتیجہ میں اسرائیل کی بھرپور کوشش یہی دکھائی دیتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح گرد بیٹھنے سے قبل ہی زیادہ سے زیادہ حصہ ہڑپ کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اپنی اس کوشش میں اسرائیل پہلے ہی شام کا اہم ترین حصہ ہڑپ کر چکا ہے جبکہ شامی افواج زمین پر کہیں بھی نظر نہیں آر ہی، جبکہ انقلابیوں کی جانب سے جب تک لائحہ عمل بنتا ہے، شام کے بیشتر حصے اس کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کر چکے ہوں گے۔ تاحال شام کا ایک بڑا حصہ کرد اپنے کنٹرول میں کر چکے ہیں، جبکہ کردوں کے خطرے سے نپٹنے کے لئے ترکی کا خاموش رہنا بھی ممکن نہیں اور اس ضمن میں عین ممکن ہے کہ ترکی بھی شام کے کچھ حصوں پر قابض ہو جائے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ زمین کا کوئی بھی ٹکرا اگر اسرائیل کے قبضہ میں چلا جاتاہے تو پوری دنیا مل کر بھی اس ٹکڑے کو واگزار کروانے میں ناکام رہتی ہے، یہی صورتحال شام میں بھی ہو گی ۔ جبکہ اصل مسئلہ اس سے بھی زیادہ دکھائی دیتا ہے کیا شام میں اقتدار حاصل کرنے والے، اس کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کر پائیں گے؟
خطہ عرب کی صورتحال اس سے بھی کہیں زیادہ مخدوش نظر آتی ہے کہ ٹرمپ کے سابقہ دور میں، ٹرمپ مشرق وسطی میں امن کے قیام کے لئے ابراہم اکارڈ متعارف کروا چکا ہے اور عرب ریاستوں کی اکثریت، ٹرمپ کے آخری دور حکومت میں جیسے تیسے کرکے، وقت گزار چکی ہے اور اس وقت اس مشکل صورتحال سے نکل چکی ہے۔ ٹرمپ کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، اکثریت کا یہی خیال تھا کہ ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں نہیں آئے گا اور مسلم ریاستوں کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کڑوی گولی نگلنے کا وقت بھی گزر جائیگا، جس کا ثبوت جو بائیڈن کا منتخب ہونا تھا لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ جو بائیڈن کا دور، اس قدر مصائب لے کر آئے گا کہ مسلم ریاستوں کے لئے اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قتل عام کو رکوانا بھی ناممکن ہو جائیگا۔ بظاہر تو ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ اسے بیس جنوری سے قبل مشرق وسطی میں جنگ بندی چاہئے لیکن کون جانے کہ اسرائیل اس پر عمل درآمد کرتا ہے یا کیت و لعل سے کام لیتے ہوئے، بیس جنوری سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ نیتن یاہو کے مزاج کو دیکھیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر وہ ٹرمپ کی اس خواہش کا احترام کرتا دکھائی نہیں دیتا، اس صورت میں ٹرمپ کیا اقدام کر سکتا ہے؟ کیا جو بائیڈن انتظامیہ کی طرح، بے بس ہو گا یا عملا کچھ کرے گا؟ عملا کیا کچھ کر سکتا ہے؟ میری رائے میں امریکہ میں کوئی بھی انتظامیہ ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اسرائیل کے حوالے سے ان کی بنیادی پالیسی ہی متعصب اور جانبدارانہ ہے، اسرائیل کے حوالے سے امریکہ کی انسانی حقوق کی تعریف ہی بدل جاتی ہے لہذا زیادہ امکانات نشستند،گفتند برخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتے کہ جب تک بنیادی سوچ تبدیل نہیں ہوتی، عملا کچھ ہونا ممکن نہیں۔ کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے غزہ کے مسلمانوں کے انسانی حقوق پر بات نہیں کی جاتی بلکہ نہتے فلسطینیوں پر آتش و بارود سے چڑھ دوڑنے والے اسرائیل کی ہمیشہ پشت پناہی کی گئی ہے اور اسے نہتے فلسطینیوں کے مقابلے حق حفاظت سے نوازا گیا ہے۔ حقائق سے ہمیشہ صرف نظر کرتے ہوئے، اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عندیہ دیا گیا ہے حتی کہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے جواب میں اسرائیل کے تحفظ کا ہر امریکی صدر نے اعادہ کیا ہے، ایسی پالیسی اور سوچ کے ہوتے ہوئے، کسی انصاف کی توقع عبث ہے۔ جانبداری کی انتہا تو اس وقت دکھائی دیتی ہے جب اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے، پڑوسی ممالک کی ہتھیائی گئی زمینوں پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا جاتا ہے اور کوئی بھی عالمی ادارہ، اسرائیل سے ہتھیائی گئی زمین واپس لینے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ مغربی دنیا اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کس قدر ہیں لیکن کسی ایک میں اتنا دم خم نہیں کہ اسے روک سکے بلکہ درپردہ اسے شہ دی جاتی ہے، پشت پناہی کی جاتی ہے اور کسی بھی ریاست کو اتنی جرات نہیں کہ اسرائیل کو روک سکے کہ اس صورت میں امریکہ براہ راست ایسی جنگ میں کودنے کو ہمہ وقت تیار دکھائی دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کی جانب سے کھلی حمایت تو تقریبا ناممکن ہے، درپردہ حمایت پر بھی ایسی گو شمالی کی جاتی ہے، یوں مشکیں کسی جاتی ہیں کہ اسے اپنی بقاء کے لالے پڑ جاتے ہیں، جس کی مثال ایک طرف لبنان ہے، دوسری طرف ایران ہے اور اب واضح طور پر شام کے ہوتے حصے بخرے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد، اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم رک جائیں گے؟ گریٹر اسرائیل کے منصوبہ پر نظر دوڑائیں تو مذکورہ حقائق کے بعد، اس سوال کا جواب قطعی طور پر نفی میں ہے، جس کے ثبوت کے طور پر ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے پروگرام میں اسرائیل میں شائع ہونے والا ایک مضمون ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ کیا اگلا نشانہ اردن ؟؟ بالفرض ٹرمپ کے انتباہ کے بعد اسرائیل، شام کی جانب اپنی پیش قدمی روک بھی دے، تب بھی ویسٹ بنک اور اس سے متصلہ اردن کے حوالے سے اسرائیلی خدشات، اسے مسلسل مصروف رکھنے کے لئے کافی ہوں گے۔ امریکی انتظامیہ کو مطمئن کرنے کے لئے، پناہ گزیں فلسطینیوں کی طرف سے متوقع حملوں کا بہانہ ہی اسرائیلی جارحیت کو جواز دینے کے لئے کافی ہو گا جبکہ عملا ایسا ’’ ہنی ٹریپ ‘‘ رچانا بھی اسرائیل کے لئے چنداں مشکل نہیں ہوگا۔ یوں اسرائیل کا رخ وقتی طور پر شام سے ہٹ کر اردن کی جانب ہو جانے کے امکانات قرین قیاس ہیں۔ جبکہ دوسری طرف گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو مد نظر رکھیں تو اس کی سرحدیں، ایران تک جا ملتی ہیں یعنی عراق مکمل طور پر گریٹر اسرائیل کا حصہ ہے اور اسی طرح اردن بھی مکمل طور پر اس کا حصہ ہے جبکہ اردن ہڑپنے کے بعد سعودی عرب کا بیشتر حصہ بھی اس میں شامل ہے، تو دوسری طرف مصر کا کچھ حصہ بھی اس میں شامل ہے۔ لہذا اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ٹرمپ اسرائیل کو نکیل ڈالنے میں کامیاب ہو جائے گا، جو میری دانست میں ممکن نہیں ہے، صیہونیوں کو ’’ کب تک‘‘ اس منصوبے سے باز رکھا جا سکے گا!!!





