پی ٹی آئی کا احسن اقدام

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
حقیقت میں دیکھا جائے تو سانحہ ڈی چوک کے بعد پی ٹی آئی رہنماوں اور ورکرز گومگو کا شکار ہیں۔ ڈی چوک میں پیش آنے والا سانحہ معمولی بات نہیں۔ سیکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ پی ٹی آئی ورکرز اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حکومت اور پی ٹی آئی شہدا کے پسماندگان کو پرسہ دینے کے لئے خواہ کچھ کریں اس کا مدوا ممکن نہیں۔ بلاشبہ عمران خان عوام اور خصوصا نوجوان نسل کے پسندیدہ اور مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ دراصل اقتدار سے علیحدہ کئے جانے کے بعد عمران خان کچھ زیادہ جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ سیاست میں اقتدار آتے جاتے رہتے ہیں لیکن عمران خان نے اقتدار سے علیحدگی کو کچھ زیادہ دل سے لگا لیا ہے۔ عمران خان کی راست بازی میں کوئی شک نہیں ملک میں دو خاندان ایسے ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اقتدار ہے کم از کم عمران خان جیسے رہنما سے ہمیں یہ امید نہیں تھی وہ اقتدار سے علیحدگی کو دل سے لگا لیں گے۔ ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خمینی 28برس جلاوطن رہے۔ نیلسن مینڈیلا 25 سال جیل میں رہنے کے بعد اقتدار میں آئے لہذا سیاسی رہنمائوں کا جیلوں میں رہنا سیاسی جدوجہد کا حصہ ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں انکشاف کیا ہے دراصل حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات کی کامیابی میں مخلص نہیں ہے ۔ کسی حد تک ان کے خدشات درست ہیں پی ٹی آئی سے مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں فارم 47کے حکمرانوں کو اقتدر جاتا دکھائی دے رہاہے۔ گزشتہ انتخابات میں دنیا نے دیکھ لیا عمران خان جیل رہنے کے باوجود عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے جس طرح عوام نے پی ٹی آئی رہنمائوں کو مینڈیٹ دیام ذوالفقار علی بھٹو کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ابھی سانحہ ڈی چوک کے آنسو خشک نہیں ہو پائے تھے کہ بانی پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال دے دی۔ چلیں اچھی بات ہے وقتی طور پر سول نافرمانی کی کال واپس لے لی گئی ہے تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے عوام بار بار سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے عمران خان جیل میں رہے یا باہر انتخابات میں عوام پی ٹی آئی کو ووٹ بہرصورت دیں گے۔ عوام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ادوار کو بڑے قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں نواز شریف مشکل وقت میں دونوں مرتبہ عوام کو چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔ لندن سے واپسی کے بعد انہیں پوری امید تھی عوام ان کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کریں گے۔ وطن واپس آنے کے بعد مسلم لیگ کے قائد نے چاروں صوبوں کا دورہ کرنے کے اعلانات کے باوجود دورہ نہیں کر سکے جو عوام میں ان کی نامقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ نواز شریف جان چکے ہیں عمران خان نے ان کے خلاف کرپشن کیسز عوام کے سامنے لا کر ان کی سیاست کو داغ دار کر دیا ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف خواہ کچھ کہیں نگران دور میں نیب قوانین میں ترامیم کرکے شریف خاندان نے اپنے خلاف مقدمات پر مہر ثبت کر دی ۔ شہباز شریف نیب قوانین میں ترامیم نہ کرتے تو شائد عوام ان کے خلاف عمران دور حکومت میں قائم ہونے والے مقدمہ کو بے بنیاد تصور کرتے نیب قوانین میں ترامیم کرکے شریف خاندان نے اپنی سیاست کا خود جنازہ نکال دیا ہے۔ جہاں تک عمران خان کی بات ہے دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کے اقتدار کو ختم کرکے عمران خان نے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے لئے میدان خود خالی چھوڑا تھا۔ عمر ان کی ہمشیرہ کے بیان کے مطابق جیل میں ان کے سیل کی لوہے کے جنگلے پر پلاسٹک لگانے کی اجازت نہیں اگر ایسا ہے تو قیدی کے ساتھ زیادتی ہے۔ عمران خان کے وکیل فیصل چودھری کے بیان کے مطابق عمران خان سے بہتر کلاس کی سہولتیں واپس لے لی گئیں ہیں۔ جیلوں میں رائج طریقہ کار کے مطابق سردی کے موسم میں قیدیوں اور حوالاتیوں کو بیرک اور سیلوں کے دروازوں پر پلاسٹک ڈالنے کی ممانعت نہیں ہوتی۔ قیدیوں اور حوالاتیوں کے جرم کا مروجہ سہولتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لہذا اگر ایسی بات ہے تو عمران خان کو سیل کے دروازے پر پلاسٹک ڈالنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پلاسٹک لگانے کا مقصد جب کوئی جیل اہل کار گشت پر آئے یا ڈیوٹی پر موجود اہل کار قیدیوں اور حوالاتیوں کی سیلوں کے اندر نقل و حمل دیکھ سکیں۔ سانحہ ڈی چوک کے بعد راولپنڈی ریجن کی جیلیں پی ٹی آئی ورکرز سے بھری ہیں۔ عدالت کسی کو ضمانت دیتی ہے پولیس انہیں دوبارہ گرفتار کر لیتی ہے۔ عدالتی احکامات پر عمل نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ناپید ہے۔ حالیہ آئینی ترامیم کرکے حکومت نے ملک کو تماشا بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کی اعلیٰ عدلیہ بارے ماضی کچھ اچھا نہیں جو جماعت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کرتی اس سے قانون پر عمل درآمد کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ سخت سردی کے موسم میں جیلوں میں جہاں چند سو قیدیوں کی گنجائش ہے وہاں دو ہزار سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں جو جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کے لئے بھی مسئلہ ہے۔ سرد موسم میں نئے آنے والے حوالاتیوں کے لئے جگہ کی تنگی کے ساتھ انہیں اوڑھنے کے لئے کمبل بھی ضرورت ہے لہذا اس موقع پر مخیر حضرات کو راولپنڈی اور دیگر اضلاع کی جیلوں میں قیدیوں کے لئے کمبل عطیہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے بھٹو کی پھانسی کے بعد شہید بے نظیر بھٹو نے دس سال تک انتظار کیا۔ جب وہ 1986ء میں وطن لوٹیں تو عوام نے جس طرح انہیں پذیرائی دی وہ ہماری سیاسی تاریخ کا روشن باب ہے جس کے بعد بے نظیر بھٹو عوام کی حمایت سے اقتدار میں آئیں۔ بہرکیف پی ٹی آئی قیادت نے سول نافرمانی کا فیصلہ موخر کرکے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر پی ٹی آئی مذاکرات پر رضامند ہے تو حکومت کو بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ کسی بھی سیاسی جماعت کو پرامن جلسے کی اجازت ہونی چاہیے نہ کے عوام کو جلسوں میں آنے سے روکنے میں عافیت ہے۔





