Column

بے بدل ادیبہ محترمہ رفعت انجم

کالم : شہادت
راجہ شاہد رشید
عصر حاضر میں اردو اور پنجابی کی باکمال و بے مثال شاعرہ محترمہ رفعت انجم جی کو میں نے پہلی بار ایک نجی ٹی وی چینل کی محفل مشاعرہ میں دیکھا اور سنا ، انہوں نے نہایت ہی عمدہ اور ایک اچھوتے انداز میں اپنی سوھنی سُریلی آواز کا جادو جگایا اور کلام سنایا کہ میں دانتوں میں دابے انگلیاں دیکھتا سوچتا ہی رہ گیا کہ کس قدر پر لطف و پرکشش شاعری ہے اور کیسی باشعور و باوقار شاعرہ ہے ۔ محترمہ رفعت انجم صاحبہ سے پہلے بھی متعدد شاعر دوست بہت ہی اچھے اچھے اشعار سنا چکے تھے لیکن مہاراج بہادر برق جی کے الفاظ میں :
وہ آئے بزم میں اتنا تو سب نے دیکھا برق
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
محترمہ رفعت انجم مشرقی فکر کی حامل ہیں ، خالص اسلامی نظریات و افکار کو سمجھنے والی ایک سنجیدہ اور باکردار بی بی ہیں ماشاء اللہ موصوفہ توحید و رسالت و حق پرستی کی کٹھن پتھریلی راہوں کی راہی ہیں اور بفضل اللہ حُب محمدؐ کے بے بہا خزانوں سے مالا مال بھی ہیں اور ان کا سلسلہ نسب بھی حضرت غازی عباس علمدارؓ سے ہوتا ہوا شیر خدا مولا علیؓسے جا ملتا ہے ۔ محترمہ رفعت انجم جی فرماتی ہیں کہ گزشتہ ربیع الاول شریف میں آقا کریم محمدؐ کی نظر کرم سے ایک ایک نعت شریف عطا ہوئی تھی۔ اس نعت رسول کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمائیے پلیز چند اشعار حاضر خدمت ہیں:
محمد نام لکھتی ہوں فضائیں جھوم جاتی ہیں
پکاروں اپنے آقا کو صدائیں جھوم جاتی ہیں
میں جب صل علی پڑھ کر دعائیں رب سے کرتی ہوں
ندائیں رقص کرتی ہیں دعائیں جھوم جاتی ہیں
میں عاصی ہوں مگر میری خطائیں بخشوائیں گے
عطائیں دیکھ کر ان کی خطائیں جھوم جاتی ہیں
ہے آقا التجا میری میرا مدفن ہو طیبہ میں
یہ میری التجا سن کر قضائیں جھوم جاتی ہیں
رفعت انجم کا پیدائشی تعلق سرگودھا سے ہے، انہوں نے سرگودھا یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان اچھے نمبروں میں پاس کیا اور اب ایم اے پنجابی بھی کر رہی ہیں۔ یہ دو بچوں کی ماں ہیں، ان کی بیٹی انگریزی میں شاعری کرتی ہیں، عنقریب ان کی کتاب بھی شائع ہو رہی ہے۔ ان کی والدہ کا نام کنیز فاطمہ ہے اور والد کا نام حافظ محمد مقصود احمد علوی ہے جو پیشے کے اعتبار سے معلم تھے۔ محترمہ رفعت انجم بھی ایک معلمہ ہیں، ہومیو ڈاکٹر ہیں، ریڈیو کمپیئر ہیں، شاعرہ ہیں ، سکرپٹ رائٹر ہیں اور دو کتب کی مصنفہ بھی ہیں ۔ آپ کی اردو شاعری کی کتاب ’’ اے ماں کاش تو زندہ ہوتی‘‘ شائع ہو چکی ہے اور ان کی دوسری پنجابی شاعری کی کتاب ’’ عشق دا سوتر‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی دو کتب ابھی اشاعت کے مراحل میں ہیں ۔ محترمہ رفعت انجم جی کا پنجابی کلام ملاحظہ فرمائیے :
ڈھول ہجر دا گل اچ پانڑاں سوکھا نئیں
لوکاں نوں ایہہ درد سنانڑاں سوکھا نئیں
ہو گئی میں برباد زمانے دے ہتھوں
میں اُجڑی نوں گل نال لانڑاں سوکھا نئیں
جیہڑا دل اچ پیر جما کے بہہ جاندا
اُوہنوں تاڑی مار اُڈانڑاں سوکھا نئیں
پا کے پیریں گھنگرو سارے نچ لیندے
بُلھے وانگر یار منانڑاں سوکھا نئیں
وچ کربل دے سارے لعل لٹا دتے
پڑھ کے کلمہ دین بچانڑاں سوکھا نئیں
رفعت انجم اپنی داستان حیات سناتے ہوئے فرماتی ہیں کہ میں بچپن کے بہت سے شوق ساتھ ساتھ پورے کرتی رہی ، ائیرہوسٹس کا شوق جنون کی حد تک تھا ، سرگودھا سے فیصل آباد انٹرویو دینے جا پہنچی اور سلیکشن بھی ہوگئی مگر کچھ بڑے اس جنون کی راہ میں ’’ کیدو‘‘ بن گئے اور جوائن کرنے سے روک دیا جیسے عین نکاح کے وقت کچھ لوگ ڈانگ سوٹے پکڑ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ’’ اُوئے ایہہ شادی نییں ہو سکدی‘‘ ۔ ہارنا تو میں نے سیکھا ہی نہیں تھا ، میں اپنے دوسرے شوق کی تکمیل میں لگ گئی ، یہ 2005ء کی بات ہے جب میں خود ڈرائیو کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے چکر لگاتی رہی اور یہ سوچتی رہی کہ میں ریڈیو پاکستان کے آفس کے اندر کیسے جائوں گی ، بچپن میں بچوں کے پروگرام میں خطوط لکھ کر اپنے شوق کا اظہار کرتی رہی مگر کامیابی کا جو وقت رب العالمین نے مقرر کیا ہوتا ہے کامیابی صرف اسی وقت ہی ملتی ہے ۔ کئی بار پائوں زخمی ہوئے، آنسو بہائے اور دل نے چاہا کہ سب کچھ چھوڑ کر صرف بچوں پر توجہ دوں ، زمانہ تو یہی چاہتا تھا کہ میں بھی عام عورت کی طرح روٹی پکانے کے ساتھ ساتھ محلے کی ماسی آئی ایس آئی بن جاں اور BBCکی طرح محلے کی تمام خبریں مرچ مصالحہ لگا کر گھر گھر پہنچایا کروں ۔ میرے اس سفر میں مجھے چند بہت ہی اچھے شاعر ادیب بھی ملے جن کی وجہ سے میں ابھی تک ادب سے جڑی ہوئی ہوں ۔ محترمہ رفعت انجم جی ایک ’’ نویکلے‘‘ اور نیارے رنگ و آہنگ میں فرماتی ہیں کہ
اُس نے آنا تھا پر نہیں آیا
آج بھی وہ گھر نہیں آیا
میں نے دل سے دعا مانگی تھی
لیکن اس میں اثر نہیں آیا
مجھ سے مجھے مانگنے کیلئے
کوئی بھی معتبر  نہیں آیا

جواب دیں

Back to top button