جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( نواں حصہ)

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
دہشت گردی کے مقدمات اور دیگر کیسوں میں سیاسی جماعتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین کسی مقدمہ میں جیل آجائیں تو انہیں عام حوالاتیوں اور قیدیوں سے حفاظتی نقطہ نگاہ سے عام قیدیوں سے بالکل الگ رکھا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے سیکورٹی وارڈز اور سیل ہوتے ہیں جہاں انہیں رکھ کر باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ انگریز کے بنائے ہوئے جیل مینوئل کے مطابق نوعمر بچوں کے لئے الگ وارڈ ہوتا ہے کچھ بڑی عمر کے بچوں کے لئے ایک علیحدہ وارڈ مختص ہوتی ہے۔ خواتین کے لئے علیحدہ سے وارڈ قائم ہوتی ہے جہاں سے خواتین کو قطعی طور پر باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عام طور پر لوگ اس بات کا پرچار کرتے ہیں جیلوں میں خواتین سے برا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی خواتین وارڈزکے قریب پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ ایک عمر رسیدہ ہیڈ وارڈر خواتین کی وارڈ کے باہر تعینات کیا جاتا ہے وارڈ کے اندر تمام عملہ خواتین ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے جن میں ایک خاتون ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ، چیف وارڈر اور ہیڈ وارڈرز خواتین دن رات ڈیوٹی پر موجود رہتی ہیں۔ خواتین قیدیوں کے علاج معالجہ کے لئے الگ خاتون میڈیکل افسر متعین ہوتی ہے۔ ہفتہ میں ایک روز خواتین کی ملاقات کے لئے مقرر ہوتا ہے اس روز کسی مرد قیدی کو ملاقاتی شیڈ نہیں بلایا جاتا۔ جہاں تک نو عمر بچوں کی بات ہے انہیں اپنی وارڈ سے باہر نکلنے کی بالکل اجازت نہیں ہوتی۔ کسی کیس میں میاں بیوی دونوں جیل آجائیں تو ہفتہ میں ایک روز میاں بیوی کی ملاقات کرائی جاتی ہے اس مقصد کے لئے خواتین کو وارڈ سے بیرکس کی طرف آنے کی اجازت نہیں ہوتی مردوں کو اپنی خواتین سے جیل ملازمین کی نگرانی میں ملاقات کرائی جاتی ہے۔ قیدیوں اور حوالایتوں کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے پڑھے لکھے قیدی جیل کے اسکول میں قیدیوں کو پڑھاتے ہیں۔ مذہبی تعلیم کیلئے سرکاری طور پر قاری کا انتظام ہوتا ہے قیدیوں اور حوالاتیوں بیرکس اور جیل کی مسجد میں بھیج کر دینی تعلیم دی جاتی ہے۔ جیل کی مسجد میں باقاعدہ ظہر، عصر، مغرب اور نماز فجر باجماعت پڑھانے کا بندوبست ہوتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے والے قیدیوں اور حوالاتیوں کو ان کی قید میں رعایت کی منظوری آئی جی جیل خانہ جات دیتا ہے۔ غیر ملکی قیدیوں کے لئے الگ بیرک مختص کی جاتی ہے جہاں ماسوائے غیر ملکی قیدیوں کے کوئی اور قیدی نہیں رکھا جاتا ہے۔ ہر بیرک کا ایک انچارج اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اور ہیڈ وارڈر مقرر ہوتا ہے۔ جیلوں میں گنتی کھلنے کے باوجود قیدیوں کی اتنی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے ہو کا عالم ہوتا ہے کسی قسم کے شور شرابے کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت میں جیل ایک علیحدہ ایک دنیا ہوتی ہے جہاں پہنچنے کے بعد انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی افسر بیرک کے باہر بیٹھا ہو کسی قیدی حوالاتی کی کیا مجال وہ اپنے طور پر اس کے قریب آجائے یا اس کے سامنے سے گزر جائے۔ جب تک کوئی افسر کسی قیدی کو بلا نہیں بھیجتا از خود کوئی قیدی اس کے پاس نہیں جا سکتا۔ قارئین کو یہ جان پر حیرت ہوگی قیدی کو کوئی افسر بلا بھیجے جو اس کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے ایسے قیدیوں کو جیل کی زبان میں ٹوری کہا جاتا ہے۔ قیدیوں کے ڈیروں سے بیرک انچارج اور چکر میں تعینات ملازمین کے لئے صبح سے شام چائے پانی اور کھانے کی ذمہ داری ٹوری قیدی کی ہوتی ہے۔ ٹوری قیدی گنتی بند ہونے کے کم از کم ایک گھنٹہ تاخیر سے بیرکس میں بند ہوتے ہیں۔ ٹوری قیدی جیل کے لباس کی بجائے گرمیوں میں کلف لگے کپڑے پہنے ہوتے ہیں وہ انہی کپڑوں میں جیل کے چکر میں افسروں اور ملازمین کے پاس بیٹھ سکتے ہیں۔ دراصل جیل امیر قیدیوں کے لئے سیر و تفریح کی جگہ ہے اور غریب اور بے سہارا قیدیوں کے لئے جہنم ہے۔ عام قیدیوں کو ادھر ادھر گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن کھاتے پیتے گھرانوں کے قیدی اس پابندی سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ماضی کے برعکس جیلوں میں قیدیوں کے علاج معالجے کا آج کل اچھا انتظام ہے سب اچھا کئے بغیر حقیقی معنوں میں علیل قیدیوں کو جیل ہسپتال رکھا جائے تو بہتری ہو سکتی ہے۔ صحت مند اور فراڈ کے مقدمات میں سزا یاب ہونے والے قیدیوں کو جیل کے ہسپتالوں میں رکھنے حوصلہ شکنی ہونی چاہیے یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے جب میڈیکل افسر اور جیل سپرنٹنڈنٹ دونوں راست باز ہوں۔ ایک سینٹرل جیل میں تھوڑا عرصہ پہلے تعینات ہونے والے سپرنٹنڈنٹ نے مبینہ طور پر رشوت خوری کی انتہا کر دی ہے وہ جیل ملازمین کو نذرانہ لئے بغیر رخصت پر بھیجنے کو تیار نہیں ہوتا۔ انگریز کے دور میں چھوٹی ذات کے لوگوں کو سرکاری ملازمت میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ وہ ملازمت کے حصول کے لئے آنے والوں کو ملازمت دینے سے قبل ان کی ذات پات کو ضرور مدنظر رکھتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سرکاری ملازمت میں آنے والوں کی ذات پات مدنظر رکھنے کا سلسلہ ختم ہونے سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے۔ قیدیوں کو رہائی کے بعد اچھا شہری بنانے اور انہیں روزگار جیسے مسائل سے نجات دلانے کی خاطر وفاقی حکومت کے فنی تعلیم دینے والے ادارے ٹیوٹا کے زیر انتظام بجلی، ویلڈنگ اور دیگر ٹیکنیکل کاموں کی تربیت کا سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے تاکہ رہائی کے بعد قیدیوں کو روزگار کے حصول میں مشکلات سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ جیلوں میں نمازوں کی ادائیگی کے لئے مساجد اور بعض جیلوں میں باقاعدہ امام بارگاہیں ہیں جہاں محرم الحرام میں مجالس کا اہتمام ہوتا ہے۔ لڑائی جھگڑا کرنے والے قیدیوں کو سزا دینے کے لئے قصوری بلاک ہوتے ہیں جو قیدی کسی قسم کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں وہاں الگ بند کر دیا جاتا ہے۔ بعض خطرناک قیدیوں کو مستقل طور پر قصوری بلاک میں رکھا جاتا ہے۔ قیدی قصوری بلاک جانے سے بہت خائف ہوتے ہیں چنانچہ قصوری بند ہونے کے بعد سفارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اگر سفارش کے باوجود کسی قیدی کو قصوری سے رہائی نہ ملے تو دوسرا طریقہ نذرانہ دے کر قصوری سے باہر آیا جا سکتا ہے۔ ( جاری)





