Column

پاکستان کا مستحکم معاشی منظر نامہ

خالد محمود
پاکستان کا معاشی منظر نامہ کافی مستحکم نظر آتا ہے۔ متعدد اشاریوں سے یہ انکشاف سامنے آرہا ہے کہ ملکی معیشت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے۔ اگرچہ ، یہ حقائق ذرائع ابلاغ پر سامنے آچکے ہیں لیکن ان کا دوبارہ ذکر ضروری ہے۔ برآمدات لگاتار بڑھی ہیں۔ ٹیکس وصولیوں میں بھی بہتری آئی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک پاکستانیوں نے ریکارڈ قائم کرکے لگاتار اربوں ڈالر غیرملکی زرمبادلہ اپنے وطن بھیجا ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رہا ہے۔ سب سے دلچسپ خبر یہ ہے کہ عالمی بینک کے انڈیکس میں پاکستان کے پوائنٹس کی بہتری آئی۔ لیکن ان خوش کن مناظر کے باوجود مثبت صورتحال کو محتاط انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور پائیدار معاشی ترقی کے لئے ممکنہ خطرات اور دیگر حقائق کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر، ملکی قرضہ اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے، پھر گردشی قرضہ ہے۔ ملک میں قابل تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان بدستور بڑی حد تک زرعی ملک ہے لیکن ہم باقاعدگی سے اشیاء درآمد کر رہے ہیں۔ اس پہلو کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے کہ ایک تیزی سے بڑھتی آبادی والے ملک کے لئے مستقبل میں فوڈ سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ، معیشت کی اٹھان کے لئے حکومت کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہئے ، تاہم طویل المیعاد معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لئے اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، برآمدات اور مقامی ترسیلات زر میں بے حد اضافہ رہا لیکن معاشی ترقی اس امید پر قائم نہیں رہ سکتی کہ یہ رجحان ہمیشہ قائم رہے گا۔ ترقی برآمدات اور صنعتوں سے آتی ہے۔ بعض افراد ڈاکٹر عشرت حسین کی اس بات سے مکمل طور پر متفق ہیں کہ ابھرتی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان نئی اور ابھرتی ہوئی صنعتوں میں انجینئرنگ سیکٹر اور کاروباری خدمات بالخصوص انفارمیشن ٹیکنالوجی ( آئی ٹی) اور آئی ٹی سے فعال خدمات ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ٹیکسٹائل سیکٹر ، جو ایک طویل عرصے سے پاکستان کی معاشی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے، اسے نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ دونوں پہلو بیک وقت ترقی کے لئے انتہائی اہم ہیں ۔ ٹیکسٹائل برآمدات میں قابل ذکر ترقی کے مواقع موجود ہیں ، اگر ہم درست اقدامات کریں اور رکاوٹوں کا خاتمہ کریں۔ سب سے پہلے، اہم ترین بات یہ ہے کہ ٹیکسٹائل برآمدات میں کم قیمت کے حامل سامان کے بجائے اعلیٰ معیار کی تیار مصنوعات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف جدید سامان پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے بلکہ ان کے سسٹمز، معیار اور تربیت پر بھی وسائل صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو پاکستان کے جی ایس پی پلس (GSP Plus)سٹیٹس میں توسیع کے لئے بھرپور انداز سے کام کرنا چاہئے۔ جہاں تک ٹیکسٹائل انڈسٹری میں پائیدار ترقی کو درپیش خطرات کا تعلق ہے تو یہاں صرف دو تحفظات کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ پہلا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ کپاس کی پیداوار کم گئی ہے جس کے باعث اعلیٰ معیار کی مصنوعات کی تیاری کے لئے کپاس کی درآمد کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ پھر کپاس کی فصل کی جگہ گنے جیسی دیگر فصلوں کی کاشتکاری نے لے لی ہے۔ اگر ہمیں اپنی تیار برآمدی مصنوعات کے لئے کپاس درآمد کرنی پڑتی ہے تو پھر ہم برآمدات میں اپنی سبقت سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا اہم تشویشناک پہلو مہنگی بجلی اور اس کی دستیابی میں مشکلات ہیں، جس کے باعث برآمدات کی بروقت تکمیل پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، اس سے لاگت بھی بڑھتی ہے اور مارکیٹ میں ہم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر گیس کی قلت کے باعث توانائی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے تو اس سے انڈسٹری بند ہوسکتی ہے اور برآمدی آرڈرز منسوخ ہوسکتے ہیں، یا پھر کم از کم ان کی بروقت ترسیل متاثر ہوگی۔ اگر بجلی کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں حتمی طور پر ختم کردی جائیں تو اس سے نہ صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فائدہ پہنچے گا بلکہ پورا ملک بھی مستفید ہوگا۔ پاکستانی کاروباری افراد کے پاس ابھی وقت ہے اور وقت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ مساوی مواقع ملنے پر وہ دنیا میں کہیں بھی بہترین انداز سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس جدت اور جرات مندانہ فیصلے کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں اضافے کے بھرپور مواقع ہیں، جس سے نہ صرف غیرملکی آمدن کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ ملک میں مجموعی طور پر پائیدار انداز سے ترقی بھی ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button