وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

صورتحال
سیدہ عنبرین
پاکستان اور بھارت کے درمیان دسمبر 1971ء میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو گیا، اس جنگ میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی تھے، جو بے حد دلیر آفیسر کی شہرت رکھتے تھے، انہیں دوسری جنگ عظیم میں بے مثال کارکردگی پر ملٹری کراس ملا، وہ ان چند فوجیوں میں سے ایک ہیں جنہیں ڈبل ملٹری کراس دیا گیا۔
جنگ دسمبر کے بعد وہ پابندیوں کی زد میں رہے اور گوشہ نشین ہی رہے، پابندی ختم ہوئیں تو انہوں نے انتہائی قریبی دوستوں اور عزیز و اقارب سے ملنا شروع کیا۔ ناصر شیرازی نے ان سے ان کی رہائش گاہ پر ایک نشست کا اہتمام کیا، جنگ کے حوالے سے مکالمہ بھی انہی دونوں کے درمیان تھا، ہم تو صرف سننے والوں میں سے ایک تھے۔ ناصر شیرازی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا سر بتایئے آپ نے جنگ کیسے لڑی! بلند آہنگ جنرل نیازی ایک دم بھڑک اٹھے اور کہنے لگے تمہارا بھی سارا خاندان آرمی، ایئر فورس اور نیوی میں ہے، تم بتائو جنگ کیسے لڑی جاتی ہے، پھر اچانک ان کے لہجے میں ٹھہرائو آ گیا۔ انہوں نے کہا جنگ میں بحری، بری اور فضائی تینوں فوجوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بحری فوج کے پاس جہاز، آبدوزیں ہوتی ہیں۔ فضائی فوج کے پاس فائر اور بمبار طیاروں کے علاوہ دیگر ضروریات کیلئے ہیلی کاپٹر ہوتے ہیں، جبکہ بری فوج انفنٹری، آرٹلری، آرمڈ کور اور سگلنلز دستوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ علاقے کی ہر انچ زمین کے نقشے ضروری ہوتے ہیں، جن میں ہر سڑک، گائوں، ندی نالہ واضع طور پر دکھایا جاتا ہے، اپنی اور دشمن کی نفری کا تناسب اور سامان جنگ کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے، لیکن مقامی آبادی کا اپنی فوج کے ساتھ ہونا اہم ترین کردار ادا کرتا ہے، ایسا نہ ہو تو فوج کو دو دشمنوں سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے، جو بے حد مشکل ہے۔ جنرل نیازی نے اپنی جنگی تیاریوں سامان جنگ اور بیک اپ پلان کے بارے میں جو کچھ بتایا وہ سن کر عقل دنگ رہ گئی، ہم سب ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے، انہوں نے جو کچھ بتایا اس کی تصدیق دیگر کئی فوجی افسروں نے کی، سب کی باتیں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی تھیں، مشرقی پاکستان میں لڑنے والی فوج کے اعلیٰ ترین افسر لیفٹیننٹ جنرل نیازی کی گفتگو کے کئی برس بعد وہاں جنگ لڑنے والے ایک نوجوان کیپٹن فرخ سے اسی موضوع پر کئی طویل نشستیں ہوئیں۔ انہوں نے بھی جنگ لڑی، قید بھی کاٹی، بعد ازاں کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ جنگ دسمبر پر کتاب لکھی، ان کی بیان کردہ تفصیلات پر ڈرامہ ’’ بچھڑ گئے‘‘ کے نام سے تیار ہوا، انہوں نے جنرل نیازی کی باتوں کی تفصیلات سے اتفاق کرتے ہوئے بتایا وہ باقاعدہ جنگ سے چند ماہ قبل ڈھاکہ پہنچے تو انہیں چند دن میں احساس ہو گیا کہ معاملہ کچھ آسان نہیں، حد درجہ سنگین حالات ہیں، کہنے کو 5ڈویژن فوج تھی لیکن درحقیقت یہ 3ڈویژن تھے، دشمن کو چکمہ دینے کیلئے دائیں بائیں سے نفری اکٹھی کر کے مزید دو ڈویژن کی نفری ظاہر کی گئی تھی، یہ تین ڈویژن 9، 14اور 16ڈویژن تھے، ان دنوں ایک ڈویژن میں 18400 تعداد ہوتی تھی۔ 36ڈویژن ای پی آر پر مشتمل تھا، اس کی کمانڈ جنرل جمشید کر رہے تھے جبکہ 39ڈویژن جنرل رحیم خان کی کمانڈ میں تھا، ڈھاکہ بائول کے دفاع کی ذمہ داری 36ڈویژن کے ذمے تھی، اس کی ذمہ داری کا علاقہ 130کلو میٹر تھا، 24نومبر کو باقاعدہ جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے بھارت نے ایک بھرپور فضائی حملہ کیا۔ بھارتی فضائی فوج کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری فضائی قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ جنگ سے قبل تینوں افواج کے کمانڈر نے اپنی اپنی سپاہ اور تیاریوں کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان ایئر فورس کے پاس صرف پرانے 15جہاز تھے جن میں ایک خراب تھا، اب انہیں فقط اس ایک سکوڈرن سے ساری جنگ لڑتی تھی۔ نیوی کے پاس کوئی جہاز، کوئی آبدوز نہ تھی، ان کے پاس صرف چند موٹر بوٹس تھیں، جن میں سوار ہو کر صرف پٹرولنگ کی جا سکتی تھی۔ 24نومبر کو بھارت کی طرف سے فضائی حملے کے مقابلے کیلئے ہمارے 4ہوا باز فضا میں بلند ہوئے، تمام دن کے حملوں کو روکنے میں دو جہاز کام آئے، ان کے پائلٹ ڈھاکہ سے 14کلو میٹر دور بذریعہ پیرا شوٹ اترے تو بنگلوں نے انہیں گھیر لیا، ان کی وردیوں کے چتھڑے بھی نہ مل سکے۔ بھارت کے 23جہاز ایک دن میں گرائے گئے، ان کے 2پائلٹ عین ڈھاکہ کے اوپر اترے، جنہیں اترتے ہی بنگالیوں نے اپنی حفاظت میں لے لیا اور انہیں غائب کر دیا، 3دسمبر کو جب باقاعدہ جنگ شروع ہوئی تو کوئی ایئر فیلڈ ایسی نہ تھی جہاں سے ہمارا جہاز پرواز کر سکتا۔ ایئر فیلڈ پر بمباری اور اسے کھود دینے سے کسی جہاز کی پرواز ممکن نہ رہی، جنگ ختم ہونے پر ہمارے 12جہاز دشمنوں کے ہتھے چڑھ گئے، جنگ شروع ہونے سے قبل ایئر فورس نے واضع کر دیا تھا کہ وہ 24گھنٹے تک مزاحمت کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے 48گھنٹے تک خوب مزاحمت کی اور دشمن کے 23جہاز تباہ کئے، اگر کوئی ایئر فیلڈ سلامت ہوتی تو وہ کوئی کسر نہ چھوڑتے، ایئر فورس نے جس طرح جنگ لڑی اس پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ مغربی پاکستان سے بھیجے گئے دستے علاقے سے بہتر واقفیت نہ رکھتے تھے ۔ ہر قدم پر بنگالی فوجی موجود تھے، جو پاکستانی فوج کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع بھارتی فوج اور مکتی باہنی کو دیتے تھے، اپنے کسی مشن کو راز رکھنا مشکل تھا، دشمن کے مقابلے میں کم نفری بہت بڑا مسئلہ تھا، پھر سامان جنگ ناکافی تھا، ہمارے پاس جو ٹینک تھے ان کی بیرل گھس چکی تھیں، گولہ کہیں فائر کرتے تو گرتا کہیں تھا، جبکہ بھارت نے ہمارے دوسری جنگ عظیم میں استعمال شدہ ٹینکوں کے مقابلے میں نئے اور جدید ٹینک اتارے، یوں ہمارا ان سے کوءی مقابلہ نہ تھا۔ کرنل فرخ کے مطابق فوج کو تعیناتی کے مقام پر پہنچنے میں جگہ جگہ بنگالیوں سے مزاحمت کا سامنا تھا، پھر جب آخری ایام میں بکھری ہوئی فوج کو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے ہوئے ڈھاکہ کے قریب آنے کا حکم ملا تو ایک مرتبہ پھر شدید لڑائی اور گھمسان کا رن پڑا۔ مختلف پوزیشنوں سے ری ٹریٹ کرتے ایک بٹالین ہیڈ کوارٹر پہنچے، ابھی سانسیں بحال ہی نہ ہوئی تھیں کہ حکم ملا ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن پر مامور ہماری سپاہ کو ہزاروں بنگالیوں نے گھیر لیا ہے، وہ اندر گھس کر ریڈیو کے ذریعے اپنی فتح کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ موصولہ حکم کے مطابق قلیل نفری کے ساتھ دستے ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن روانہ ہوئے اور راستے کی تمام رکاوٹوں اور مزاحمت کو عبور کرتے ہوئے ریڈیو سٹیشن کی عمارت تک پہنچے، وہاں محصور ساتھیوں کو ریسکیو کیا، واپس پہنچے تو ہتھیار ڈالنے کے فیصلے کا اعلان ہو چکا تھا، وقت بہت کم تھا، اہم دستاویزات اور اہم اشیاء کو دشمن کے ہاتھ لگنے سے بچانے کا مرحلہ در پیش تھا، وہ چیزیں، کاغذات اہم فائلیں، جنہیں ہم اپنی جنگ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے انہیں اپنے ہاتھوں سے نذر آتش کرنے کا مرحلہ بے حد تکلیف تھا۔ جنگ لڑنے کیلئے موجود ہتھیار سپاہی کا اثاثہ ہوتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے اس اثاثے کو اس لئے تباہ کرنا ضروری تھا کہ دشمن کے ہاتھ نہ لگے، اس کام سے فارغ ہوئے تو ٹرک، جیپیں اور دوسری گاڑیاں تیار تھیں۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان کے قریب پہنچنے کا حکم مل چکا تھا۔ دفاع وطن کیلئے جس جگہ پر بیٹھ کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو چکا تھا، عمارت پر آخری اور الوداعی نظر ڈالی تو دل میں صرف ایک خلش تھی کہ ہم ناکافی سامان جنگ اور کم ترین نفری کے ساتھ وہ کچھ نہ کر سکے جو کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک قرار تھا۔ مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں تھا۔ انتقال اقتدار ضروری تھا۔





