بدعنوانی میں جکڑا خطہ اور انسداد کی قومی ذمہ داریاں

تحریر: امتیاز یٰسین
بد عنوانی، کرپشن صرف مالی معاملات میں بے ضابطگیوں خورد برد کا نام نہیں بلکہ اپنے پیشہ ورانہ اور سماجی امور اور دیگر قومی ذمہ داریوں کی بجا آوری میں غفلت، تساہلی، بے ایمانی، دھوکہ دہی، مذہبی اخلاقی بات چیت کے حقائق سے انحراف و دیگر خرافات بھی بدعنوانی میں شامل ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی زبوں حالی، معاشی ناہمواری، غربت کی نمو اور شہریوں کی جانب سے اداروں میں نا انصافی پر چیخ و پکار کا بنیادی عنصر بد عنوانی ہے۔ اگرچہ یہ خوش آئند ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹ2023ء کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی سطح کم ہوئی ہے۔ لیکن پھر بھی ہر شخص اپنے تئیں طاقت، عہدے، اقربا پروری کا ارتکاب اور وسائل کا ناجائز استعمال کر کے ملک کو لوٹتا اور شہریوں کا استحصال کرتا نظر آتا ہے۔ ان خرافت سے ہمارا معاشرتی و اقتصادی نظام ترقی معکوس کا شکار ہے تو بیرونی سرمایہ کار کو بھی ایسی بد نظمی سرمایہ کاری سے ہچکچاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ربانی ہے: ’’ بے شک انسان بہت لالچی پیدا ہوا ہے‘‘۔
انسان اپنی اسی بری سرشت کی تسکین کے لئے زندگی اور زیست کو مختصر اور بے ثبات جانتے ہوئے بھی ہر جائز و ناجائز ذرائع سے مال و دھن کو اکھٹا کرنے میں لگا ہے۔ حریص انسان معاشرے میں اخلاقی، مالی و مادی ضابطوں کی خلاف ورزی اور اپنے قانونی عہدے، اختیارات سے متجاوز ہو کر کرپشن، بدعنوانی، غبن اور رشوت جیسے برے افعال اپنا کر ایک طرف معاشرے کی اخلاقی معیاروں کی جڑیں کھوکھلی و تباہی سے دوچار کر رہا ہے تو دوسری طرف آخرت و عاقبت کی بربادی کا سامان اکھٹا کرنے میں جتا ہوا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایک طرف انسان معاشرتی اور حکومتی اداروں میں بد عنوانی و بے ضابطگیوں کا رونا روتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف خود صدق، امانت دیانت، عدل و انصاف اور مسلمہ اخلاقی اقدار و حدود کی پامالی کا مرتکب بنا ہوا ہے۔ اپنے مفادات کا اسیر اور اپنی اشرف المخلوقات کی حیثیت کو بھول کر بد عنوانی جیسے ناسور کا شکار ہو گیا ہے۔ اجتماعی و قومی خیر شر کے فکر و مفاد سے عاری نجی اداروں، کاروباروں، حکومتی اداروں اور اشرافیہ میں ہر طرف قومی مزاج میں رچی بسی سیاسی بدعنوانی کا دور دورہ اور باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ بد عنوانی کا قلع قمع اور روک تھام کرنے میں ہماری قانونی کمزوریوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ریاستی اداروں میں سالہاسال سے بڑے شدّ و مدّ سے عملی مستعمل’’ لے کے رشوت پھنس گیا ہے تو دے کے رشوت چھوٹ جا ‘‘ اور’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے بد نام زمانہ ضرب المثل کی تصویر بنے چور بھی چور چور کہتے نظر آتے ہیں۔ المیہ ہے کہ الیکشن کے دوران پارٹیاں پاکستان کے سب سے بڑے مسئلے کرپشن کے خاتمہ کا دعویٰ ان کے منشور میں سر فہرست ہوتا ہے لیکن جب اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو نئی حکومت ان کو بد عنوانی کے الزام میں ہی جکڑ لیتی ہے یہ سلسلہ گزشتہ نصف صدی زائد سے جاری ہے۔ عالمی ادارہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں کرپشن 120نمبر پر رہا۔ آج بھی سابقہ حکومتوں کے ارکان جو اس وقت اپوزیشن میں ہیں، کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جیلوں میں ہیں۔ یہی عمل موجودہ اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ مستقبل میں ہونے والا ہے آخر کب تک یہ دھینگا مشتی چلتی رہے گی؟۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ان کے اثاثوں کی ملکیت مطابقت نہیں رکھتی۔ رشوت معاشرے کا جزوِ لازم اور قومی کلچر کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اسی کرپشن کی بدولت قومی ادارے تباہی سے دوچار ہیں، سڑکیں بنتے ہی ٹوٹ جاتی ہیں، بلڈنگزتعمیر کے چند سال کے بعد شکست و ریخت کا شکار نظر آتی ہیں، پل افتتاح سے قبل ہی گر جاتے ہیں۔ غریب قو م کے ٹیکسوں کے پیسے قرضوں کی مد میں لیکر ہڑپ کر لئے جاتے ہیں یا پھر ڈھٹائی سے انکاری ہو جاتے ہیں، جو بد عنوانی کی بد ترین قسم ہے، ریلوے، قومی ایئر لائن، پاکستان سٹیل ملز وغیرہ قومی آمدن والے ادارے بدعنوانیاں کے ہاتھوں خسارے کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ میگا پراجیکٹس کے ٹھیکوں میں بددیانتی۔ ترقیاتی، فلاحی، اصلاحی کاموں میں بدعنوانی و بے ضابطگی میگا سکینڈلز اور چھوت کے مرض کا روپ دھار چکے۔ حتیٰ کہ معتبر اداروں پر بھی کرپشن کی چھاپ ہے۔ پولیس سٹیشنز پر انصاف کے بنیادی اصولوں کی پامالی اور تفتیش کو گڈ مڈ کرنے سے بینچ اور بار کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں الجھنوں کا سامنا ہے۔ محکمہ ریونیو، لوکل گورنمنٹ، ایڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ، پولیس ڈیپارٹمنٹ، محکمہ آبپاشی، محکمہ صحت، ایجوکیشن وغیرہ میں کرپشن و بد عنوانی کی سڑانڈ کے چرچے زبانِ زدِ عام اور سارے سسٹم کو متعفن کر رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں انسداد بد عنوانی اداروں کی کارکردگی موثر قوانین کی موجودگی کے باوجود ایشیائی ممالک میں سب سے پیچھے ہے، شاید یہاں کے عوام میں بد عنوانی کے برداشت کا عنصر مضبوط پیمانے پر پایا جاتا ہے۔ بدعنوانی کے باعث ملکی وسائل کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا، شہری مایوسی و بد امنی، معشیت کے عدمِ استحکام کے منفی اثرات کے حصار میں مبتلا ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کی بدولت مسائل گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ ذاتی فائدے کے لئے اپنے عہدے کا استعمال اور بے قاعدگیوں جیسے نقائص کی بیخ کنی کے لئے، بلا طمع سوچ، قناعت پسندی کو اپنا کے اس کے خلاف چائنا کی طرح سخت سزائوں پر عملدرآمد یقینی بنانا ہو گا۔ بد عنوانی کے انسداد کے لئے قوانین کا نفاذ شفافیت و جوابدہی کے موثر نظام کی تشکیل ضروری ہے۔ قانون کی حکمرانی کی بالا دستی کے لئے مقتدر، صاحب اختیار اور عوام میں شعور بیدار کرنے کے لئے سیمینارز کا انعقاد ضروری ہے۔





