ناخواستہ انسان

روشن لعل
زیر نظر تحریر کے عنوان میں شامل لفظ ’’ ناخواستہ ‘‘ کے معانی ’’ غیر مطلوب‘‘، ’’ ان چاہا‘‘ اور ’’ناپسندیدہ ‘‘ وغیرہ ہیں ۔ اگر اس تحریر کے عنوان میں ’’ ناخواستہ ‘‘ کے ساتھ ’’ انسان‘‘ بھی لکھا گیا ہے تو اس سے مراد ایسے انسان ہیں جن کا نہ کوئی طالب ہو، جنہیں پانا کسی کی بھی خواہش نہ ہو اور جو کسی کی بھی آرزو نہ ہوں۔ ایسے انسانوں کے لیے الفاظ کا عام فہم مرکب ’’ غیر مطلوب ‘‘ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جن انسانوں کو ’’ غیر مطلوب ‘‘ کہا جاسکتا ہے ان کا المیہ یہ ہے کہ ان کو ناقابل قبول سمجھنے کا اظہار ان کے کسی عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ پیدائش کے فوراً بعد انہیں دیکھتے ہی کر دیا جاتا ہے۔ ان غیر مطلوب یا ان چاہے بچوں کا اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عام انسانی سوچ ا بھی تک یہ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکی جو بچے پیدا ہوتے ہی غیر مطلوب ہو جاتے ہیں انہیں انسانوں کے کس جنسی گروہ میں رکھا جائے۔
دنیا میں انسانوں کے جنسی گروہوں سے متعلق جس عمومی سوچ کے ذکر کیا گیا ہے یہاں اس کے شعوری یا غیر شعوری ہونے کی بحث میں تو نہیں الجھا جاسکتا مگر اسے عجیب ضرر کہا جا سکتا ہے ۔ جس سوچ کو عجیب کہا جاسکتا ہے اس کے مطابق دنیا میں انسانوں کے صرف دو جنسی گروہ ہیں جن میں سے ایک عورتوں اور دوسرا مردوں کا ہے۔ ایسی سوچ جو بدقسمتی سے یہاں غالب ہے اسے کسی طور درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر اس سوچ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ ماننا ضروری ہو جائے گا کہ تمام انسانوں کی حیاتیاتی اور جنیاتی خصوصیات عورتوں اور مردوں کے دو گروہوں میں سے کسی ایک کی جسمانی صفات سے مختلف ہو ہی نہیں سکتیں جبکہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔ جنس کے اعتبار سے انسانی گروہوں کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کئی ملین ایسے افراد موجود ہیں جن کی جنسی خصوصیات مردوں اور خواتین کی مطلق جسمانی صفات کے عین مطابق نہیں بلکہ اس حد تک مختلف ہیںکہ انہیں ایک علیحدہ انسانی جنسی گروہ تصور کیا جانا ضروری ہے۔ انسانوں کے اس گروہ سے وابستہ لوگوں کو دنیا میں کئی قسم کے ناموں سے پکارا جاتا ہے جن میں سے کئی توہین آمیز حد تک غیر مناسب ہیں مگر اب مجموعی طور پر ان کے لیے لفظ ’’ ٹرانس جینڈر‘‘ استعمال کیا جانے لگا ہے جو ان لوگوں نے قبول بھی کر لیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک تقریب میں کچھ ٹرانس جینڈر انسانوں سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ یہ تقریب اس خاص مقصد کے تحت منعقد کی تھی کہ اس کے ذریعے سول سوسائٹی اور میڈیا کے لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ کسی بھی ملک ، خطے یا علاقے میں اگر کسی وجہ سے حالات معمول کے مطابق نہ رہیں تو ان غیر معمولی حالات کے مردوں اور عورتوں کی طرح ٹرانس جینڈر کمیونٹی پر بھی الگ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت کو جن عمومی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں مد نظر رکھتے ہوئے ذہن یہ میں خیال آیا کہ تقریب کا موضوع موجودہ دور سے کچھ آگے کی بات ہے مگر وہاں جن ٹرانس جینڈر لوگوں سے ملاقات ہوءی ان کی شخصیت ، لب و لہجہ اور انداز دیکھنے کے بعد تقریب کا موضوع گفتگو قابل جواز محسوس ہونے لگا۔ اس تقریب میں جتنے بھی ٹرانس جینڈر شریک تھے تقریباً وہ تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کسی حد تک اچھے مڈل کلاس خاندانی پس منظر کے حامل دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں موجود ٹرانس جینڈرز کی تعلیمی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب میٹنگ میں آن لائن شرکت کرنے والے کچھ لوگوں کے ساتھ رابطہ منقطع ہونے کے بعد منتظمین کے لیے مسئلہ پیدا ہوا تو وہاں موجود ایک ٹرانس جینڈر نے فوراً یہ مسئلہ حل کر دیا۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ ٹرانس جینڈر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آئی ٹی ایکسپرٹ ہے۔ اس طرح کے تعلیم یافتہ ٹرانس جینڈرز کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی کہ جس سماج میں انہیں ’’ غیر مطلوب انسان ‘‘ سمجھا جاتا ہے وہاں ایسے ماں باپ اور لوگ بھی ہیں جنہوں نے انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور کارآمد انسان بننے کے مواقع فراہم کیے۔ یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی جب تقریب کے ایک منتظم نے بتایا کہ یہاں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے جو لوگ آپ کو کار آمد اور کامیاب نظر آرہے ہیں ان کی پیدائش گو کہ ایسے خاندانوں میں ہوئی جہاں زیادہ معاشی مسائل نہیں تھے مگر انہیں بھی آگے بڑھنے کے لیے ایسے مواقع اور ماحول نہیں ملا جس طرح عام انسانوں اور عام بچوں کو ملتا ہے۔ ان کی پیدائش کو بھی ان کے خاندان میں صدمہ ہی سمجھا گیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ تقریب میں موجود ٹرانس جینڈر بھی اپنے ماں باپ ، فیملی اور سماج کے لیے ’’ ناخواستہ ‘‘ انسان ہی تھے مگر یہ ان کے اپنے اندر کی صلاحیتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے انہوں نے اپنی کمیونٹی کی اکثریت سے کچھ مختلف حالات دستیاب ہونے کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ اگر سماج ان کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کر دے تو وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ کوئی ٹرانس جینڈر معصوم بچے کے طور پر کسی آسودہ گھر میں پیدا ہو یا غیر آسودہ والدین کے ہاں، یہاں فوری شناخت کے بعد کہیں بھی اس کے لیے حالات مختلف نہیں ہوتے۔ ہر ٹرانس جینڈر کی پیدائش کو اس طرح چھپایا جاتا ہے جیسے گھر میں کوئی دشنام یا طعنہ پیدا ہو گیا ہو۔ اکثر ماں باپ انہیں کمتر درجے کا بچہ تصور کرنے کے باوجود کسی نہ کسی حد تک ان کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں سب سے زیادہ ان کے سگے بہن بھائیوں کی طرف سے دھتکارا جاتا ہے۔ شریک بہن بھائیوں کی دھتکار پھر انہیں گھر چھوڑنے اور کسی گرو کے ڈیرے کو پناہ گاہ بنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ ان راستوں کے مسافر بن جاتے ہیں جن پر چلتے ہوئے یہ کبھی کسی فنکشن میں ڈانس کرتے یا چوراہوں پر مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے وابستہ وہ المناک تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی جس کا آغاز ان کی پیدائش کے فوراً بعد شروع ہوجاتا ہے۔ اختصار کی مجبوری کے باوجود جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے بھی یہ یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ ٹرانس جینڈرز کی پیدائش کے فوراً بعد ان کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے اگر ان کی بھی عام بچوں کی طرح پرورش کی جائے تو یہ بھی عام انسانوں کی طرح کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ ایسا ممکن بنانے کے لیے صرف سماج ہی نہیں بلکہ ریاست اور حکومتوں کو بھی اپنے رویے مزید تبدیل کرنے ہونگے ۔ حکومتوں کے رویے ماضی کی نسبت ٹرانس جینڈرز کے لیے تبدیل ہونا شروع ہو چکے ہیں لیکن عمومی سماجی رویے اب بھی بڑی حد تک حسب سابق ہیں۔ سماجی رویوں کی تبدیلی کے لیے حکومت کی طرف سے ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ جن پر عمل درآمد ہوتا دیکھ کر کوئی بھی ٹرانس جینڈرز پر روایتی ظلم کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ جب حکومتیں ٹرانس جینڈرز کے حق میں ایسی قانون سازی کریں گی تو پھر ہی سماج انہیں ’’ ناخواستہ‘‘ کی بجائے ’’ خواستہ‘‘ انسان سمجھنا شرو ع کرے گا۔





