Column

پاکستان میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی ہے

تحریر: چودھری صائم ذوالفقار ( سی ای او ، وولکا فوڈ)
ولیم جے کلنٹن نے کہا کہ ’’ نئی معیشت میں انفارمیشن، تعلیم اور حوصلہ افزائی ہی سب کچھ ہے‘‘۔
اور میں اس کو صرف ایک لفظ میں بیان کرتا ہوں کہ لوگ جنہوں نے اس انفارمیشن، تعلیم اور حوصلہ افزائی کو استعمال کرنا ہے، جو تاریخ میں معاشی بدلائو کی ذمہ دار اور وجہ تھی۔ صنعتکاری کے دور سے لے کر انفارمیشن کے انقلاب تک انسانی وسائل نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ طویل تجارتی تنازعات، پالیسی کے غیر یقینی حالات، وبائی صورتحال، کاروباروں کی بندش، بڑے پیمانے پر تعطل، بے روزگاری اور گہرے سیاسی تضادات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی عالمی معاشی صورتحال میں اقتصادی خطرات سے متعلق تنبیہات کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ انسانی اثاثوں کی مدد سے ہمیشہ بدلائو ممکن ہے، جو پوری دنیا میں متحرک اور مستحکم ہیں۔ آزاد معیشت کی یہ خوبی ہے کہ ہم کامیابی کو اوپر سے نیچے تک ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ لہٰذا مضبوط معاشی حالات اس اثر کو نیچے تک لے جاتے ہیں اور کاروباری طبقہ سے لے کر ایک مزدور تک ہم سب نیچے تک آمدنی کی پیداوار اور اضافے کے ذریعے اس منافع کو بانٹتے ہیں۔ مہنگائی سے لڑنے اور غربت پر قابو پانے کا واحد ذریعہ روزگار ہے۔ روزگار پیدا کرنے کیلئے کاروباری طبقہ اور حکومت مل کر کام کرتے ہیں اور ایک ایسا سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں کاروبار کرنا سستا ، آسان اور موثر ہو۔ ایک بار جب لوگ روزگار پر لگ جائیں گے اور کمائی کرنے لگیں گے تو وہ اسی کاروبار کیلئے مانگ پیدا کرنے لگیں گے جس نے ان کیلئے موقع پیدا کیا تھا۔ لہٰذا یہ ایک ایسا چکر ہے جو بڑے معاشی استحکام سے شروع ہوتا ہے اور صارفین کی خریداری کے چھوٹے معاشی خاکے تک جاتا ہے۔
پیارے قارئین! خصوصاً نوجوانان، آپ نے کچھ ماہرین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ پاکستان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ کہیں بھی نہ جانے کی بجائے صحیح سمت کی طرف بڑھنا بہتر ہے اور میں آپ کو واضح کروں گا کہ ہم کس طرح درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی میں معاشی عدم استحکام کے باوجود، اگر براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری، ذخائر میں اضافے، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں کمی کی بات کی جائے تو پاکستان میں بہت بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ شرح سود کو کم کرنے کی مانیٹری پالیسی نے ملک میں معاشی سرگرمی پیدا کردی ہے، خاص طور پر وہ تاجر جو ایک چھوٹے کاروبار کو شروع کرنے کیلئے سرمائے کی تلاش میں ہیں بالآخر روزگار پیدا کریں گے اور آخر کار جن لوگوں کی جیب میں پیسہ ہوگا وہ اسے خرچ کریں گے اور اس طرح وہ معاشی چکر شروع ہوجائے گا، جس کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا۔
آئیے کچھ ایسے اعدادوشمار کو دیکھتے ہیں جو میری بات کی تصدیق کریں گے۔ پاکستان عالمی بینک کی مستحکم کریڈٹ آئوٹ لک میں منفی رہا کرتا تھا، گزشتہ مالی سال کے اختتام تک یہ مستحکم بڑے اقدامات کرکے ابھرا ہے۔ ٹیکس وصولی میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ شرح مبادلہ مستحکم رہی ہے۔ معیشت پر غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برآمدات جو جمود کا شکار رہی ہیں ان میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ برآمدی اشیاء کی پیداوار میں اضافہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ سٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ اور ہم ا ن اہم اعدادوشمار کے اپنی روزمرہ زندگی پر پڑنے والے اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو کہ جلد ہی آپ سب کو بھی نظر آنے لگیں گے۔
پیکیجڈ فوڈ انڈسٹری کا حصہ ہونے کے ناطے ہم نے اپنے لوگوں کو محفوظ رکھنے میں معاونت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نے روزگار کے مواقع پیدا کئے۔ پیکیجڈ فوڈ انڈسٹری بھی پچھلے کچھ عرصہ میں متاثر ہوئی۔ صارفین کے طرز عمل اور خریداری کا انداز متاثر ہوا۔ لیکن ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور ہم نے مقابلہ کیا، خصوصاً پیکیجڈ فوڈ انڈسٹری نے جسے پچھلے ایک سال کے دوران غیر معمولی ترقی ملی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں خوراک اور گروسری کی مصنوعات سے لے کر گھریلو اشیاء تک ایف ایم سی جی کی بڑی صلاحیت ہے۔ ایک بہت بڑی مڈل کلاس آبادی اس معاشی آئوٹ لک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ سٹورز میں نئے برانڈز اور نئے منصوبوں کے ساتھ ہر سال صارفین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور لوگ انہیں خرید رہے ہیں۔ صارفین کی بہت بڑی تعداد صنعت کو وسعت دینے اور مزید ملازمتیں پیدا کرنے کو ممکن بنا رہی ہے اور بڑی معیشت سے چھوٹی معیشت تک چلنے والے چکر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج کے نوجوان جو جنریشن زیڈ سے تعلق رکھتے ہیں وہ برانڈز اور صحت کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ وہ کئی طرح کی سکرینیں استعمال کر رہے ہیں اور انہیں ہرروز بے شمار معلومات حاصل ہیں۔ وہ آن لائن آرڈر دے رہے ہیں اور آسانی کے ساتھ اپنے گھروں سے کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ وہ زیادہ فعال اور موثر انداز میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک پیسہ پہنچانے اور روزگار پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہیں جس کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ برانڈ مینوفیکچررز کی حیثیت سے ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اب ہم ان برانڈز کے مالک نہیں ہیں بلکہ یہ برانڈز نئی نسل کی ملکیت ہیں۔ اب وہ انہیں اپنے قومی برانڈز سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم ہر صورتحال کا سامنا اور آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کر کے اسے ممکن بنانے کی پوری صلاحیت کے ساتھ اس عظیم مُلک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ میں آخر میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر ہم سرمایہ کاروں کیلئے ضوابط کے ضمن میں موزوں ماحول فراہم کر کے کھلی اور آزاد معیشت کی راہ پر سفر کو جاری رکھتے ہیں اور کاروباری طبقہ مزید ملازمتیں پیدا کرتا رہتا ہے اور اگر ہم مصنوعات برآمد کرکے اور غیرملکی ذخائر کو وطن میں واپس لاتے رہتے ہیں تو پھر ہمیں اوپر سے نیچے تک جہاں ہمارا حقیقی صارف رہتا ہے اپنی معاشی کامیابی کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہمیں بس صحیح سمت میں آگے بڑھتے رہنا ہے۔

جواب دیں

Back to top button