شام میں بشارالاسد ہارا مگر جیتا کون سوال اہم

نذیر احمد سندھو
شام کے حال احوال سے پہلے انور مقصود ایک خوبصورت مزاح اور ڈرامہ نگار کا اغوا، شبہ ہے اغوا سرکاری کارندوں کی کارگزاری ہو سکتی ہے، کار گزاری کسی کی بھی ہو قابل مذمت ہے۔ بشار الاسد سابق صدر ہو چکے اور شام سے راہِ فرار اختیار کر کے روس پہنچ چکے اور بقیہ زند گی کیلئے سامان تعیش منوں سونا اور دو ارب ڈالر جہاز بھر کر لے گئے، یہ میڈیا کی سرخی ہے، حقیقت کتنی ہے، کسی کو معلوم نہیں۔2011ء میں تیونس کے صدر زین العابدین بھی معہ بیوی بچوں کے اسی طرح سونا اور ڈالر لے کر سعودی عرب پہنچے تھے،2019ء میں مال و دولت چھوڑ کر دفن ہو گئے اور ساتھ کچھ نہ لے جا سکے، یہ بات ساری دنیا کے حکمرانوں نے سمجھ لی ہے، ماسوائے مسلمانوں کے۔ ابو محمد الجولانی۔ ہیئت التحریر الشام عسکری گروپ کے سربراہ ہیں، الجولانی کا پس منظر ابھی دھندلا ہے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش بھی متنازعہ ہے، اقوام متحدہ اور انٹرپول کے ریکارڈ کے مطابق 1975ء یا 1979ء ہے جبکہ الجولانی نے ایک امریکی ٹی وی نیٹ ورک کو انٹرویو میں 1982بتائی، ریاض میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد ایک پٹرولیم انجینئر کی جاب کر رہے تھے، واپس شام چلے گئے، جہاں الجولانی نے تعلیم شروع کی اور پھر القاعدہ جوائن کر لی۔ القاعدہ کے معروف جنگجو الزرقاوی کی قربت سے جہادی گروپوں میں نام ملا اور پھر بغدادی کے عراقی شہر موصل پر قبضے کے بعد بغدادی سے متاثر ہو کر داعش جائن کی۔ 2014ء میں عراق شام اسلامی سٹیٹ کے سربراہ البغدادی نے عراق کے شہر موصل پر حملہ کرکے عراقی فوج سے ہتھیار چھین کر موصل پر قبضہ کرکے عالمی شہرت حاصل کی اور وہ دنیا میں مسلم جنگجوئوں کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ابو محمد الجولانی بھی ان نوجوان جنگجوئوں میں شامل تھے جنہوں نے بغدادی کی فورس جوائن کی ۔ اس سے پہلے وہ القاعدہ میں رہ چکے تھے، القاعدہ کی جنگی اور تنظیمی تربیت کی وجہ سے انہوں نے بغدادی فورس کے اندر بہت تیزی سے ترقی کی اور بغدادی کے قریب ترین لوگوں میں شامل ہو گئے، اتنے قریب کہ بغدادی انہیں خود ڈائریکٹ ڈائریکشن دینے لگے۔ بغدادی نے الجولانی کو شام بھیجا ،الجولانی نے جبھہ النصرہ نامی عسکری تنظیم بشارالاسد کے خلاف جنگ کرنے کیلئے منظم کی ،چونکہ سرمایہ اور اسلحہ بغدادی سے ملتا تھا لہذا جبھہ النصرہ کی جنگی صلاحیت کے چرچے ہونے لگے ۔2016ء میں بغدادی نے جبھہ النصرہ کے isis( عراق شام اسلامی ریاست ) میں انضمام کا اعلان کر دیا جس کی الجولانی نے مخالفت کی انضمام کی تجویز کو رد کر دیا اور القاعدہ سے دوبارہ روابط قائم کر لئے۔ وہ زرقاوی کے ساتھ کام کر چکا تھا لہذا اسے الزاہروی تک رسائی میں مشکل پیش نہ آئی۔ الجولانی کی شخصیت کا مطالعہ کرنے کیلئے اسکے ادا شدہ کرداروں کا سمجھنا ہو گا ،میرے خیال میں وہ کسی کو بھی استعمال کر سکتے ہیں، جو الزاہروی اور بغدادی سے فوائد تو اٹھاتا رہا مگر ان کی خواہش کے با وجود ان کا حصہ نہ بنا کافی ہوشیار ہے۔ الجولانی کا کہنا ہے وہ القاعدہ اور isisکی بربریت سے متفق نہیں تھا۔ کچھ حیرت زدہ کر دینے والے مناظر ہیں، بشارالاسد ایک ایسی ریاست کا سربراہ تھا جس کے پاس آرمی، ایئر فورس، نیوی تھی، اس کی موجودگی میں اسرائیل بہر حال شام پر حملے نہیں کرتا تھا، الجولانی کے قبضے کے بعد اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں کے وہ علاقے جو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں تھے ان پر قبضہ کر لیا ہے شام کی اسلحہ بنانے والی فیکٹریوں پر ہوائی حملے کرکے تباہ کر دیا ، دمشق میں جگہ جگہ آگ لگی ہے۔ مانا حافظ الاسد کے مقبرے کو لوگوں نے آگ لگائی ہے مگر باقی دمشق پر کون آگ برسا رہا، نیتن یاہو نے بشر الاسد کے فرار کو اپنی فتح قرار دیا ہے، کیا الجولانی اسرائیل کی مدد سے شام پر قابض ہوا ہے ۔ نیتن یاہو کے دعوے کا جواب کس کے پاس ہے۔ شام جو لبنان کا محافظ تھا اس کا کیا بنے گا، حزب اللہ کا قیام اور جنگی انتظام و انصرام لبنان میں ہے جس کو شام سے تقویت ملتی تھی کیا الجولانی حزب اللہ کو تقویت فراہم کر سکے گا، لبنان کو بچا پائے گا۔ اسرائیلی افواج نے شام کی تمام سٹریٹجک اثاثے تباہ کر دیئے ہیں۔ شامی افواج کے ممبران آفیسرز سولجرز خود پناہ گاہیں تلاش کرتے پھر رہے ہیں، اسلحہ ساز فیکٹریاں تباہ کر دینے کا اسرائیل کا دعویٰ ہے، روس نے فضائی اور بحری اڈی جو بشارالاسد سے 45سالہ لیز پر لے رکھے تھے وہاں سے بھی کوئی دفاع نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی روس چین ایران سمیت کسی نے بشار الاسد کو بچایا۔ شام کی سب فورسز کہاں ہیں۔ اسرائیل کہتا ہے ہمارا معاہدہ امن شام سے تھا مگر یہ معاہدہ بشار الاسد نے کیا تھا، اس کے فرار ہونے پر وہ معاہدے ختم ہو گئے ہیں۔ یہ وہ تشنہ سوالات ہیں جن کے جوابات مستقبل قریب میں ملیں گے فی الحال سب کچھ بند گلی میں ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے شہر موصل پر قبضہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا تھا اور پہلی بار اپنی پراکسی دنیا کو دکھائی۔ موصل ایک چھائونی ہے عراقی فوج سوئی ہوئی تھی بغدادی کے فائٹرز نے صبح 4بجے حملہ کرکے موصل پر ہی نہیں فوجی اسلحے پر بھی قبضہ کر لیا۔ عراق کے فوجی مارے گئے یا بھاگ گئے۔ بغدادی کے فائٹرز نے بنکوں سمیت ہر جگہ سے پیسہ لوٹ لیا، عورتیں اٹھا لیں اور انہیں مال غنیمت قرار دے دیا جو ایک سے دوسرے کو ٹرانسفر کر دی جاتیں۔ صدام پھانسی چڑھ چکا تھا اس کے تربیت یافتہ سپاہی روزگار کی تلاش میں تھے، بغدادی نے انہیں ڈالرز میں اچھی تنخواہ پر بھرتی کر لیا۔ عراق میں یزیدی قبائل صدیوں سے آباد تھے، بغدادی نے ان پر حملہ کر دیا، مرد قتل کر دیئے، عورتوں کو جہادی کیمپوں میں شفٹ کر دیا گیا، جو جہادیوں کی سیکس سروس کرتیں، ان میں سے بیشتر اب بھی جہادیوں کے پاس ہیں۔ 2014ء میں اسلامی ریاست نامی بغدادی اسٹیٹ پر جنگ میں کالم لکھا تھا، میں نے اس وقت کہا تھا،داعش سی آئی اے کا برین چائلڈ ہے، جس کی نرسنگ M.I.6نے برطانیہ میں کی ہے، اس وقت کے فرانس کے وزیر داخلہ خدشہ ظاہر کر چکے تھے، ان کا بیان تھا ہمیں یہ تو معلوم ہے برطانیہ میں کچھ پک رہا ہے، مگر یہ معلوم نہیں تھا کیا پک رہا ہے، موصل پر حملے کے بعد فرانس کے شبے کی تصدیق ہو گئی۔ بعد میں جنہوں نے بغدادی کو بنایا تھا انہوں نے ہی اسے مار دیا۔ میرا سوال ہے اگر یہ جہادی ہیں تو صرف انہی ریاستوں کے خلاف کیوں جہاد کر رہے ہیں جو اسرائیل سے بر سرپیکار ہیں۔ یہ حماس اور حزب اللہ کے ساتھ کیوں نہیں ملتے۔ انہوں نے کبھی اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کیا۔ شام کی تقسیم نئی نہیں ۔2011ء کی سول نافرمانی تحریک نے شام کو پانچ حصوں میں بانٹ دیا۔ گو بڑا ایریا بشارالاسد کے پاس رہا، دمشق پر اسی کی حکومت رہی، جولان کی پہاڑیوں کا ایک حصہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں چھینا تھا جو ابھی تک انہی کے پاس ہے۔ کچھ حصے پر اقوام متحدہ کا کنٹرول تھا۔ بشار الاسد کے فرار کے بعد اس پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا ہے۔ اسرائیل اور بشار الاسد کے علاوہ عراق شام اسلامی ریاست isis،القاعدہ،سیریا فری آرمی ( یہ شامی فوج کا باغی گروپ ہے ) اورجبھہ النصرہ جو اب دمشق پر قابض ہوا ہے اور نیا نام ہیئت التحریر الشام ہے۔ کردوں کا بھی بہت بڑا گروپ ہے، یہ شام عراق اور ترکی کے شہری ہیں مگر نئے ملک کردستان کے لیے تینوں ممالک سے بر سر پیکار ہیں۔ سوال بنتا ہے ان کے وسائل کیا ہیں۔ القاعدہ اور بغدادی کو بشار الاسد کے مخالفین بھی فنڈز دیتے تھے، شام کی زمینیں زرخیز ہیں فرات دجلہ کا پانی میسر ہے ، کسانوں کے ذریعے اور خود بھی فصلیں کاشت کرتے ہیں اور خوراک کا ایک حصہ زمینوں سے حاصل کرتے ہیں۔ سب گروپوں نے زیادہ شام اور کچھ عراقی تیل کے کنووں پر قبضہ کر رکھا ہے، اپنی اپنی پمپنگ کرتے ہیں اور بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں یہ آمدنی کا بڑا ذریعہ ان کے خریدار ترکی برطانیہ فرانس اور امریکہ ہیں۔ ترکی کے ساحل سمندر پر ان ممالک کے آئل ٹینکرز کھڑے رہتے ہیں، چونکہ سارے راستے ترکی کے استعمال ہوتے ہیں لہذا ترکی خوب فائدہ اٹھاتا ہے، بلیک مارکیٹ تیل بہت ہی سستا ملتا ہے لہذا گاہک ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا ذریعہ نوادرات ہیں۔ دریائے، دجلہ فرات کے کنارے پرانی تہذیبوں کا آغاز ہوا اور وہ انہی دریائوں کے کنارے دفن ہیں۔ سالوں سے مشرق وسطیٰ کے حکمران کھدائی کرکے یہ نوادرات بیچ رہے ہیں، سرمایہ خزانے میں جاتا یا حکمرانوں کے اکائونٹ میں کالم کا موضوع نہیں ، اب یہ جہادی گروہ اپنے مقبوضہ علاقوں میں کھدائی کرکے نوادرات بیچ رہے ہیں، ان نوادرات کے بیوپاری بھی ترکی میں بیٹھ کر خرید و فروخت کرتے ہیں۔ نوادرات جہادی گروپوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ جہادیوں کو اپنے اپنے گروپوں کی طرف ڈالرز میں اچھی تنخواہیں ملتی ہیں ضروریات زندگی اسلحہ کی فراہمی گروپوں کی ذمہ داری ہے تیل، نوادرات اور زرعی اجناس کی آمدنی سے الگ حصص ملتے ہیں، چونکہ یہ اپنے خاندانوں سے کٹے ہوئے ہیں لہذا مصرف کوئی نہیں ماسوائے ایک کے جس کا میں ذکر نہیں کرونگا ۔2014ء میں جنگ کے لئے کالم لکھا تھا جس میں بہت سے جہادی فتووں کی بھی ذکر کیا تھا۔ میرے مقررہ دن پر نہ کالم نہ چھپا تو پیج ایڈیٹر سہیل وڑائچ، جو، اب گروپ ایڈیٹر ہیں، کو فون کیا تو اس نے بتایا میں کراچی ایئر پورٹ پر ہوں اور اتفاق سے آپ کا ہی کالم پڑھ رہا ہوں بہت اچھا کالم ہے، مگر چھپے گا نہیں، چھپنے کی صورت میں یہ آپ کے لئے اور اخبار کے لیے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے اب بھی متنازعہ فتوئوں کا ذکر نہیں کر رہا، البتہ جلد اپنے وی لاگ میں ضرور کرونگا۔





