ستم کی وارداتیں

باد شمیم
ندیم اختر ندیم
سکندر اعظم کے تسخیری عہد سے لے کر رومی سلطنت کی صوبائی مرکزیت تک اور اس کے بعد سے آج تک ابھرتے سورج کی سر زمین ’’ شام‘‘ اپنی ایک صدیوں پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ باغوں، مرغزاروں، پہاڑیوں کے دامن میں واقع دمشق ایک تاریخ کا امین ہے، جس پر ایک طویل عرصہ مشق ستم ہوتی رہی ہے۔ ہم نے ابھی بیگانوں کا شکوہ کرنا ہے لیکن ’’ شام‘‘ کے اپنے حکمرانوں نے بھی اس کے ساتھ وہ کیا کہ تاریخ اسے ستم کی وارداتوں میں یاد رکھے گی۔
یہ 1999۔2000ء کی بات ہے جب ہم اردن سے ہوتے ہوئے دمشق پہنچے، شام کا تاریخی بازار دیکھا، موذن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت بلالؓ کے مزار اقدس پر حاضری دی، وہاں دیگر مبارک ہستیوں کے مقدس مزارات کی زیارت بھی کی۔ دمشق کے لوگ بڑے ملنسار مہمان نواز اور نفیس لوگ ہیں لیکن دنیا کی سازشوں اور اپنوں کی لغزشوں نے وہ کام دکھایا کہ شرما کر رہ جائیے، نتیجتاً صاف ستھرے لوگوں میں ایسے حکمران بھی مسلط ہوئے جن کا دامن دنیاوی آلائشوں سے لتھڑا ہوا تھا۔ بشارلاسد کے خلاف ہونے والی حالیہ بغاوت نے اسے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ دمشق پر سالہاسال حکمرانی کرنے والے بشارالاسد کے والد کا لوگوں نے مقبرہ تک جلا ڈالا، یہ حکمران اگر اپنے انجام کی خبر رکھتے ہوں تو وہ جبر کے سلسلوں کو کبھی دراز نہ کریں۔ دمشق کے عوام ایک طرف تو بشارالاسد سے گلوخلاصی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم دمشق تک پہنچ چکے ہیں، نہ صرف دمشق تک اسرائیلی فوج کے سورما رسائی حاصل کر چکے ہیں بلکہ دمشق پر گولہ و بارود برسا کر اسے تہس نہس کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی سورمائوں نے جب غزہ پر یلغار کی تو دنیا سراپا احتجاج ہوئی، ایک سال سے تجاوز کرتے اسرائیلی مظالم یہاں تک آپہنچے ہیں کہ ظلم کا سلسلہ دوسرے سال کے تیسرے ماہ میں داخل ہو چکا ہے، لیکن غزہ پر ڈھائے جانے والے ظلم کی سیاہ رات میں ابھی تک امن کا سویرا طلوع نہ ہوسکا، بلکہ امید کی کوئی کرن بھی تو دکھائی نہیں دے رہی اور جیسے ہی شام کے حالات اس نہج کو پہنچے کہ وہاں باغی سرخرو ہوئے تو موقع پاتے ہی اسرائیل بھی جا پہنچا اور جاتے ہی وہاں کی پہاڑیوں اور علاقوں پر قابض ہوگیا اور اب وہ شام کی سلامتی پر وار کرتا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری شام پر اسرائیلی کارروائیوں کو اس کی سلامتی پر حملہ قرار دے رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری یا اقوام متحدہ کی کسی قرارداد یا دنیا کے کسی دبائو کو اسرائیل نے خاطر میں رکھا ہی کب ہے، اسرائیلی سورمائوں نے فلسطینیوں کے بچوں، نوجوانوں، خواتین کو سرعام قتل کیا، خاندانوں کے خاندان اجڑ گئے، ایک ایک گھر کا ہر فرد شہید کر دیا گیا، دنیا میں اس کے خلاف احتجاج ہوئے لیکن اسرائیلی بدمست ہاتھی کہیں رکا نہیں، آج اگر شام پر اسرائیلی فوج نے یلغار کردی ہے تو وہ کسی مذمت سے کب رکنے والی ہے، مسلمان اگر دنیا میں کسی پوزیشن میں ہوتے تو دنیا کی کسی قوت کو مسلمانوں کو گزند پہنچانے کی جرات نہ ہوتی۔ افسوس کہ ہر طرح کے وسائل سے مالا مال مسلمان اپنے اقتدار کو دوام دیتے رہے، سامان تعیش کرتے رہے اور کافر کہ جو اس بات کا ادراک کر چکا تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ راتوں کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنے والے مسلمان دن کو تلواریں لیے میدان جنگ میں اترتے ہیں، انہیں کسی بھی طرح شکست دینی ممکن نہیں تو کافروں نے ایک منظم سازش سے مسلمانوں کو کبھی خوف تو کبھی دنیاوی ہوس میں الجھا کر انہیں اپنے راستوں سے بھٹکا دیا۔ مسلمان جو سیدھے راستے پر چلتے ہوئے امن صلح، بھائی چارے کی بات کر رہے تھے ان سے ان کی فطری معصومیت چھین کر دنیا کی چکا چاند میں مگن کر دیا گیا اور کافر علم تحقیق میں ترقی کرتا گیا۔ علم اور تحقیق جو مسلمانوں کا ورثہ تھا کہ دنیا میں علم اور تحقیق میں مسلمانوں کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جس وجہ سے مسلمانوں پر فخر کیا جاتا تھا۔ مسلمان سائنسدانوں کی کتابیں یورپ کی یونیورسٹیوں میں اٹھارہویں صدی کے وسط تک پڑھائی جاتی تھیں، ان کے حوالے دئیے جاتے لیکن مسلمانوں سے علم کی دولت چھین کر علم کی دوڑ میں سبقت لے جا کر کافر آج اس مقام پر ہیں کہ انہوں نے ترقی پاکر سائنس کی ان بلندیوں کو چھو لیا ہے کہ جہاں تک جانا مسلمانوں کے بس میں نہیں۔ مسلمانوں نے اپنی عالی شان عمارتوں کو بلند کیا اور زمانہ ترقی کے آسمان پر پرواز کرتا گیا، مسلمان کافروں کی چالوں سے کو سمجھ نہ سکے اور کافر روز بروز طاقت پکڑتے گئے اور آج ایک مٹھی بھر اسرائیل امت مسلمہ کے وسیع تر علاقوں کو روندتا ہوا انہیں دنیا سے مٹا دینے کے در پے ہے۔ دنیا نے اور دنیا کے مسلم حکمرانوں نے ہر طرح کے اجلاس اور مذمتیں کر دیکھیں لیکن کافروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی، آج دمشق کی طرف یلغار کرکے یہودی تقریباً عالم اسلام پر قابض ہوگیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین پر چڑھائی کرکے ہماری گردن تو دبوچ ہی لی تھی، اب شام پر ہلہ بول کر وہ آگے بڑھنے کے راستے ہموار کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ظاہری طور پر یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لیں۔ اسرائیل شام سے ہوتا ہوا ایران تک پہنچنا چاہتا ہے اور پھر ایران کو بھی خدانخواستہ ملیا میٹ کرنا چاہتا ہے۔ شام ایک ایسی راہداری تھی کہ ایران جہاں سے مزاحمتی تنظیموں تک اسلحہ یا امداد پہنچاتا لیکن شام پر اسرائیلی قبضے کے بعد اب یہ بھی ممکن نہیں رہا اور مسلمان حکمران جو بظاہر تو اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن انہیں خوف ہے کہ اگر حماس اور حزب اللہ کو اسرائیل کے مقابلے میں فتح ہو گئی تو کہیں وہ ان کی طرف بھی اپنا رخ نہ کر لیں حالانکہ حماس اور حزب اللہ تو مزاحمتی تنظیمیں ہیں جو اسرائیلی مظالم کے آگے سینہ سپر ہیں اور تاریخ نے ثابت کر دیا کہ دنیا کی ہر ترقی دنیا کے جدید ترین اسلحے کے استعمال اور پوری قوت کے بعد بھی اسرائیل اپنے قیدیوں کو حماس سے رہائی ممکن نہ بنا سکا تو اگر حماس یا حزب اللہ کا ساتھ دینے کے لیے دنیا کے دوسرے با اثر مسلم حکمران بھی آگے آتے تو کیا امر مانع تھا کہ اسرائیل کو شکست نہ دی جا سکتی، لیکن مسلمانوں کے دلوں میں اقتدار کی طمع راسخ ہو چکی ہے۔ عرب کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ حزب اللہ یا حماس کو کافروں کے مقابلے میں فتح ہوتی ہے تو یہ ان کی فتح ہے، لیکن عرب کے حکمران باطنی طور پر ان سے خوفزدہ ہیں، یہی وجہ ہے عرب کے حکمرانوں نے اسرائیل کی صرف زبانی کلامی مذمت کی ہے وگرنہ عرب ممالک فلسطین کے معاملے پر حقیقی معنوں میں مل بیٹھتے تو نوبت یہاں تک نہ آتی۔





