دو ماہ کا کھیل

صورتحال
سیدہ عنبرین
عوامی ووٹ کی طاقت اور بھرپور مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی حکومت یقیناً مضبوط ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ ہو یا کوئی ادارہ سب اس کے مینڈیٹ اور طاقت کو تسلیم کرتے ہیں، آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں، حکومتی ترجمان ان تعلقات کے بارے میں بار دگر کہتے ہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں یہاں تک تو بات درست ہے، سمجھ میں آتی ہے، لیکن معاملات اس کے برعکس ہوں، پہلے ایک نے دوسرے کو چنا ہو، پھر دوسرے نے پہلے کو چنا ہو، تو ان کے تعارف کا فقرہ عرصہ دراز سے مستعمل ہونے کے باوجود بے معنی لگتا ہے۔ کہنا چاہئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک بیڈ پر ہیں، یہ ایک بیڈ گھر کا ہو سکتا ہے اور ہسپتال کا بھی۔
گھر کے بیڈ پر ایک فریق دوسرے کے گال پیار سے تھپتھپا سکتا ہے، گیسو سنوار سکتا ہے اور بہت کچھ کر سکتا ہے، جو آپ بخوبی جانتے ہیں، لہٰذا اس کی مزید تفصیل کیا بیان کی جائے۔ اب تو نابالغان بھی سوشل میڈیا تک رسائی نے بالغ کر دیئے ہیں، روٹی کو چوچی کہنے کے زمانے بیت گئے ہیں، ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے مریض کی دیکھ بھال کیلئے ڈاکٹر سرجن، نرسنگ سٹاف بمعہ وقت موجود ہوتا ہے، دوائیں باقاعدگی سے ملتی رہتی ہیں، ٹیکے لگتے رہتے ہیں، لیکن وہ جو گھر میں ایک بیڈ پر ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کو مریض کے بیڈ کے ساتھ پڑے بینچ پر روز و شب بسر کرنا پڑتے ہیں، وہ وہیں لیٹے لیٹے، بیٹھے بیٹھے مریض کی صحت یابی کیلئے دعائیں کرتا رہتا ہے، اسے مریض کی صحت یابی کی صورت میں اس عذاب سے نکلنے کا راستہ بھی نظر آتا ہے جس میں وہ خود بینچ کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کل ہر طرف ایک غلغلہ ہے سٹاک مارکیٹ کے آسمان کو چھو لینے کا، اسے معیشت کی بحالی سے تعبیر کیا جا رہا ہے، گویا پیغام دیا جا رہا ہے کہ معیشت ہسپتال کے بیڈ سے گھر کے بیڈ پر شفٹ ہو گئی ہے، اسے ترقی سے تعبیر کرنے والے اپنا دل بہلانے کیلئے یہ ورد جاری رکھیں، لیکن عجیب ترقی ہے جو چند سو افراد کما رہے ہیں وہ سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں، جن کا ڈوب رہا ہے وہ حالت غشی میں ہیں، سٹے بازی کا اثر زندگی کے کسی شعبے میں نظر نہیں آتا، پاکستانی کرنسی مستحکم نہیں ہوئی، اگر ہوئی ہوتی تو ڈالر کی قیمت کم ہو جاتی، حکومت کے پاس پیسہ وافر ہوتا تو پٹرول کی قیمت کم کی جاتی بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آتی، بجلی کی کھپت موسم سرما میں 30فیصد کم ہو جاتی ہے اس کی قیمت کم کیوں نہ ہوئی۔ گزشتہ سالوں میں جو ڈکیتی بجلی کے بلوں میں جاری رکھی گئی وہ اب سوئی گیس کے بلوں میں شروع ہو چکی ہے، کھانے پینے کی کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی، چکن کی قیمت اگر قدرے کم ہوئی ہے تو اس کا جناب نواز شریف کے ویژن سے کوئی تعلق نہیں، مچھلی کا سیزن شروع ہونے پر ہمیشہ چکن کا ریٹ کم ہوتا ہے۔ غریب آدمی مٹن اور بیف کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ دودھ کو صرف دور سے دیکھ سکتا ہے، وہ بھی ملاوٹ شدہ دودھ، خالص دودھ کی بہاریں تو اس وقت ختم ہو گئی تھیں جب لاہور کو صاف کرنے کے ڈھکوسلے پر دودھ دینے والے جانوروں کو لاہور سے نکال باہر کیا گیا، لاہور تو صاف ستھرا نہ ہو سکا دودھ میں پانی ملانے کا راستہ کھل گیا۔ لوٹ مار کا کلچر عروج پر ہے، ادویات کی قیمتوں میں 3سو فیصد اضافہ ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا ڈرامہ سمجھنے سے پہلے ایک اور آسان فہم کہانی سمجھ لیجئے، ایک شخص گاڑیاں خریدنے بیچنے کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کا کاروبار تباہ ہو گیا ہے، شو روم ویران ہو گیا ہے، دوچار دوستوں نے اپنی نئی قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں اس کے شو روم میں لا کر کھڑی کر دیں، اس کے ساتھ ہی پابندی لگا دی کہ ان گاڑیوں کو فروخت نہیں کیا جا سکتا، انہیں کرائے پر نہیں چلایا جا سکتا، ان کا اور کوئی استعمال بھی نہیں کیا جا سکتا، یہ جہاں پارک کی گئی ہیں وہیں رہیں گی۔ ستم بالائے ستم ان دونوں نے دنیا بھر کو یہ راز کی بات بھی بتا دی کہ ہم نے اپنی قیمتی گاڑیاں ایک دوست کے شو روم میں کھڑی کی ہیں، فروخت نہیں کیں، وہ انہیں صرف دیکھ سکتا ہے، دنیا کو دکھا سکتا ہے، ان کا استعمال نہیں کر سکتا، دنیا اس شخص کے شو روم کے پاس سے گزرتی ہے، ان کا ٹھٹھا اڑتی ہے اور کہتی ہے عجیب احمق شخص ہے دوسروں کی گاڑیاں دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو بیوقوف بناتا رہتا ہے کہ اس کا شو روم قیمتی گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ حجازی، یو اے ای، قطری اور چینی، چند ارب ڈالر ہمارے خزانے میں اپنی شرائط پر رکھے گئے ہیں، ہم انہیں صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہو سکتے ہیں، برت نہیں سکتے، خرچ نہیں کر سکتے۔ دل بہلانے کا کام دے رہے ہیں، دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے، ایک ہم ہیں جو آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں۔ ایک اور پہلو پر نظر ڈالیں تو ادھر بھی خیر کی کوئی خبر نہیں، ملازمین اپنی سالانہ چھٹیاں جمع کر کے ان کے عوض کیش حاصل کر لیا کرتے تھے، اس رقم سے ان کا کوئی ایک کام سیدھا ہو جاتا ہے، یہ سہولت ختم کر دی گئی ہے، انشورنس ختم ہو چکی ہے، فیملی پنشن بند اور پنشن پر کٹ کی تیاری ہے، مزید دیکھیں کیا کیا بند کیا جاتا ہے، حق مانگنے اور انتخابی ڈکیتی پر صدا بلند کرنے والوں کے بارے میں بتایا گیا کہ 192ارب روپے روزانہ کا نقصان ہوا، کوئی بتائے صرف عوامی آواز دبانے کیلئے انٹر نیٹ کو انگلی کرنے سے کتنے ارب ڈالر روزانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں متعدد کال سینٹرز بند ہو چکے ہیں، ایک ایک کال سینٹر میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں، زیادہ تعداد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ہے جو گھر آ بیٹھے ہیں، دنیا سے رابطہ کٹ گیا ہے، آئی ٹی پراڈکٹ تیار نہیں ہو رہی، جو ہو رہی ہے وہ بر وقت کلائنٹ تک پہنچ نہیں رہی، وہ خریدوفروخت جو آن لائن ہو رہی تھی منجمد ہو چکی ہے۔
جاری برس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں نے ایک بات زور دے کر کہی ہے کہ جس ملک میں رول آف لاء نہیں ہو گا وہ ملک معاشی ترقی نہیں کر سکے گا۔ پاکستان گزشتہ 3برس میں اس حوالے سے عالمی رینکنگ میں کتنا اوپر یا کتنا نیچے گیا ہے، دنیا اسے غور سے دیکھ رہی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کو پاس کرانے کیلئے جو جو حربے استعمال کئے گئے وہ دنیا سے پوشیدہ نہیں رہ سکے۔ سانحہ اسلام آباد کے بعد غیر ملکی سفیروں میں پائی جانے والی بے چینی دور کرنے کیلئے ہمارے وزیر خارجہ نے ان سے ملاقات کی اور ایک بڑے اجتماع میں انہیں بتایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، صرف اپوزیشن ملک دشمن ہے۔ خدا کرے تمام سفیروں کو وہ سچے اعداد و شمار یاد نہ آئے ہوں جو ہمارے سابق وزیر خزانہ نے اپنے دور میں آئی ایم ایف کو دیئے، جن پر پاکستان کو بھاری جرمانہ کیا گیا۔
ایک پیج سے ایک بیڈ تک جانے والا معاملہ اب کہاں تک جائے گا، دو ماہ کے کھیل میں واضح ہو جائے گا۔





