Columnمحمد مبشر انوار

سو سے بلین ڈالر تک

محمد مبشر انوار
زندگی مقصدیت کے بغیر کس قدر ادھوری ثابت ہوتی ہے، اس کا اندازہ ان شخصیات کی سوانح سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کسی مقصد کے لئے وقف کر رکھی ہو اور اس میں زیادہ دلچسپی اس وقت دکھائی دیتی ہے جب اس مقصد کا حصول بھی ممکن ہوا ہو۔ ایسی سوانح بنی نوع انسان کے لئے ایک روشن مثال بن جاتی ہے جو کئی دوسرے اشخاص کے لئے مشعل راہ بن جاتی ہیں، دئیے سے دیا جلتا جاتا ہے اور مخلوق خدا کی خدمت ہوتی جاتی ہے۔ انسانیت کے لئے یوں تو سب سے بڑا مقصد ان کی فلاح ہے لیکن اس سے بھی اہم ترین بھولے بھٹکے ہوئے انسانوں کو ’’ فلسفہ بندگی ‘‘ سے متعارف کروانا، اللہ کی وحدانیت سے روشناس کروانا اور اللہ کو معبود واحد مانتے ہوئے اس کی عبادت کروانا ہے، جو انبیاء کرامٌ، اولیاء کرام کو زیبا ہے، جو نتائج سے بے خبر، اپنی زندگیوں کو اس مقصد کی خاطر وقف کئے رکھتے ہیں، ان کا مقصد زندگی بہرطور کسی بھی دوسری کاوش سے کہیں افضل ہے۔ جبکہ دکھی، مجبور و بے کس و بے بس بنی نوع انسان کی مدد کے لئے بروئے کار آنا بھی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ اس میں دنیا کی باتوں کے علاوہ عزت نفس کو تج کر خالصتا بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے نکلنا قطعا آسان نہیں۔ حالیہ تاریخ میں بہرطور اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ایسے معاشروں میں جہاں غربت و افلاس نے عوامی بہبود و خوشحالی کے راستے مسدود کر رکھے ہوں، چند منتخب لوگ تن تنہا اس کٹھن سفر کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان کی اولوالعزمی، نیک نیتی اور سچی لگن کے باعث، انہیں اللہ کی رحمت و مدد سے ایسے معاونین دستیاب ہو جاتے ہیں، جو شریک سفر بن کر اسے ایک کارواں کی شکل دے دیتے ہیں ۔یوں ایک چھوٹا سا پودا بتدریج پروان چڑھتا چڑھتا تن آور درخت سایہ دار بن جاتا ہے، ایک خوشبو دار درخت بن کر اپنے اردگرد کے ماحول میں پھیل کر فرحت و تازگی کا احساس پیدا کرتا ہے، گرے ہوئے لوگوں کے لئے امید کی نئی جوت جگا کر انہیں واپس زندگی کے مدار میں لاتا ہے اور یوں معاشرے میں رچی بسی بے بسی کے احساس کو مٹانے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات کا تذکرہ کیا کرنا کہ سب کے سامنے ہیں اور اس پس منظر میں شہریوں کی حالت زار جس نہج تک جا پہنچی ہے، سب کو اس کا بخوبی علم ہے اس معاشرتی ناانصافی کے باعث شہریوں کی زندگی کس قدر اجیرن ہو چکی ہے، اس سے بھی سب بخوبی واقف ہیں تاہم اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں درد دل رکھنے والے افراد کی کمی نہیں ہے اور انفرادی حیثیت میں سماجی خدمات کے حوالے سے یہاں بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف ایدھی فائونڈیشن ہے تو دوسری طرف چھیپا جیسی تنظیم ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی ایک ایسے رفاہی ادارے، عوامی بہبود کے لئے روبہ عمل ہیں ،ان میں سے کئی ایک کا دائرہ کار ایک ہی ہے تو کئی ایک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمت خلق میں مصروف عمل ہیں، جن میں اس وقت شوکت خاتم ادارہ بھی سرفہرست ہے تو دوسری طرف’’ اخوت‘‘ نامی ادارہ بھی پاکستان میں انتہائی معتبر ہو چکا ہے۔
میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ 7دسمبر کی ایک خوبصورت شام،اخوت کے بانی جناب ڈاکٹر امجد ثاقب کے ہمراہ گزارنے کا موقع ملا۔ پاکستان کلچرل گروپ ریاض کے زیر اہتمام منعقد اس شام میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے ’’ اخوت‘‘ کی کارگزاری سے سامعین کو آگاہ کیا گو کہ اخوت کی خوشبو دارکارگزاری کی خوشبو آج چاردانگ عالم میں پھیل چکی ہے اور اس کے اعتراف میں ڈاکٹر امجد ثاقب کو نوبل پرائز کے لئے منتخب بھی کیا جا چکا ہے لیکن شو مئی قسمت یہ اعزاز ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کو نہیں مل سکا تاہم اس شام ڈاکٹر امجد ثاقب کو سنتے ہوئے رتی برابر یہ احساس نہ ہوا کہ اس کا انہیں کوئی ملال ہے۔ جس مستقل مزاجی ،محنت و لگن و تندہی سے ادارہ اخوت زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں روبہ عمل ہے بلکہ اس جہتیں مزید پھیل رہی ہیں،اس کے اعتراف میں نوبل پرائز کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں لیکن اس کے نہ ہونے سے عملی جدوجہد پر کوئی فرق نہیں پڑا،حوصلے ویسے ہی جوان و تروتازہ دکھائی دیتے ہیں جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کے لئے دنیاوی عہدے و پرائز کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی وہ ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے والے کبھی دنیاوی ستائش کے طلبگار دکھائی ہی نہیں دیتے کہ ان کا راستہ اور منزل،ان کی مرہون منت ہی نہیں اور وہ فقط توکل اللہ کرتے ہوئے اپنے راستے پر گامزن دکھائی دیتے ہیں اور جنہیں اللہ رب العزت اپنے راستے کے لئے چن لے،دنیا خود بخود ،ان کے راستے میں بچھی چلی جاتی ہے،اس کی مثال ادارہ اخوت کا قیام اور اس کی دن دگنی رات چوگنی ترقی اور مسلسل پھیلتی ہوئی خدمت خلق ہے۔
اپنی جدوجہد کی ابتدائی کاوش کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب نے ج قصہ سنایا،وہ یقینا تمام قارئین بخوبی جانتے ہوں گے،تاہم مکرر کے لئے یہاں لکھ رہا ہوں کہ کس طرح ایک خوددار بیوہ خاتون ان کے پاس ایک فریادلے کر آتی ہیں اور ان سے دس ہزار قرض حسنہ کا تقاضہ کرتی ہیں تاکہ اس سے وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لئے رزق کما سکیں۔جس کی واپسی کے لئے وہ چھ ماہ کا وقت طلب کرتی ہیں،ڈاکٹر امجد ثاقب،وقت کی کس گھڑی کے زیر اثر،نجانے کس جذبے کے تحت مطلوبہ رقم اس خاتون کو ادا کرتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ رقم اب ناقابل واپسی ہے لیکن ان کی یہ سوچ اس وقت انہیں حیران کردیتی ہے،جب ٹھیک چھ ماہ بعد وہی خاتون ان کے دفتر میں دوبارہ نمودار ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ اس خاتون کی صورتحال قدرے مختلف ہوتی ہے،ان کے چہرے پر سکون و اطمینان و آسودگی کی لہر واضح دکھائی دیتی ہے اور سب سے بڑھ کر اعتماد،ان کے چہرے سے عیاں ہے۔انتہائی پراعتماد لہجے میں وہ خاتون ان کو اپنی روداد سناتی ہے، اوران کو رقم واپس کرتے ہوئے ایک مشورہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ نجانے آپ نے یہ رقم کس جذبے کے تحت دی تھی ،جس نے میری زندگی بدل دی ہے لہذا میرا مشورہ ہے کہ اس کو دوبارہ اپنی جیب میں ڈالنے کی بجائے اسے کسی اور مستحق کی مدد کرنے میں لگائیںتاکہ کسی اور کا بھی بھلا ہو سکے۔ڈاکٹر صاحب یہ سن کو سوچ میں گم ہو جاتے ہیں اور تخیل انہیں کسی اور دنیا میں لے جاتا ہے کہ پاکستانی قوم کے متعلق ان کا نظریہ ،ان کی سوچ کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے کہ ایسی قوم جو آج بھی سود سے پاک ’’ قرض حسنہ‘‘ کو ترجیح دیتی ہے اور جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قرض لے کر واپس نہیں کرتی بلکہ الٹا رقم کی واپسی میں رسوا کر دیتی ہے،کس طرح اپنی نیک نیتی ثابت کر رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ دوقومی نظریہ پر معرض وجود میں آنے والے اس ملک کے شہری آج بھی دل و جان سے بلا سود معیشت کے اسلامی اصولوں پر کاروبار کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومتیں اپنی مجبوریوں کے باعث،ایسی معیشت کو فروغ دینے میں ناکام رہی ہیں،علاوہ ازیں! نیت کے فقدان کے انہیں پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ اس پس منظر میں اخوت جیسے بلاسودی ادارے نے شہریوں کے لئے امیدکی ایک نئی کرن جگا رکھی ہے،اس شمع سرمایہ اری کاری سے مستفید ہونے والوں کی تعداد آج 40لاکھ افرادکے توسط سے کروڑوں افراد تک پہنچ چکی ہے اور اس میں میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔یوں ادارہ اخوت میں یکطرفہ اضافہ نہیں ہورہا بلکہ اپنی بہترین ساکھ کے باعث اسے عطیات دینے والوں میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور پہلے سے موجود عطیات دینے والے بھی اپنی حیثیت کے مطابق عطیات میں اضافہ کررہے ہیں۔ مواخاہ مدینہ کو سامنے رکھتے ہوئے، اخوت طرز پر بنے اس ادارے نے اب دیگر نظر انداز کئے گئے شعبہ جات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کر لی ہے،ان کے نزدیک دھرتی پر سب کچھ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے جبکہ ادارہ اخوت صرف تقسیم کار ہے،اب نظریں میدان تعلیم پر گڑھی ہیں کہ تعلیم کے بغیر دنیا کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں اور آج کے طالبعلم کو تعلیم بھی قرض حسنہ ہی کے اصول کے مطابق دی جاتی ہے کہ تعلیم آج حاصل کریں اور فیس کل صاحب حیثیت ہونے پر ادا کریں۔دوران تعلیم توجہ صرف تعلیم ہی پر نہیں بلکہ بچوں کی تربیت پر مرکوز ہے کہ آنے والے کل میں دنیا داری سے قطعا متاثر نہ ہوں اور جیسے بلاسود قرضوں کی شرح واپسی 99.99%ہے ،طلباء کی جانب سے بھی شرح واپسی یہی بلکہ اس سے زیادہ ممکن بنائی جا سکے،اس مقصد کے لئے بنائے گئے تعلیمی اداروں میںان طلباء کی تربیت انتہائی بلند معیار کی، کی جاتی ہے۔ بطور مثال ان تعلیمی درسگاہوں میں بنائی گئی سٹیشنری کی دکانوں پر ہر شے کی نرخ آویزاں کئے گئے ہیں جبکہ کوئی بھی شخص دیکھ بھال کے لئے موجود نہیں ،ایک ڈبہ ہے جس میں طلباء خرید کردہ شے کی قیمت ڈال کر چلے جاتے ہیں،بقول ڈاکٹر صاحب،عموما رقم فروخت ہوئی اشیاء سے زیادہ برآمد ہوتی ہے۔
اخوت او ر اس جیسے دیگر اداروں کو دیکھ کر امید سحر برقرار رہتی ہے کہ خواہ ہماری حکومتیں و اشرافیہ اپنے فرائض میں مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو اس خامی کو پورا کرنے کے لئے پورے خلوص او ر نیک نیتی کے ساتھ بروئے کار آنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں،ایسے درددل رکھنے والے اگر حکمران بھی ہوں تو اس قوم کے حالات بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔اس کے باوجود نجانے کیوں ایسے افراد اور ان کے قائم کردہ اداروں کو دیکھ کر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ رب العزت پاکستان کو ناکام نہیں ہونے دی گا اور مستقبل میں اس کی بھاگ ڈور ان اداروں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کے ہاتھ آئے گی یا وہ ملک وقوم کی خاطر بروئے کار آئیں گے، اشرافیہ کے لئے اس انقلاب کو روکنا ممکن دکھائی نہیں دے گا کہ یہ قوم کٹھالی سے گذر کر کندن بن کر سامنے آئے گی، ان شاء اللہ، بہرکیف ڈاکٹر امجد ثاقب کا سو ڈالر سے شروع کیا گیا سفر، تب ڈالر سو روپے کے برابر تھا اور دس ہزار روپے سو ڈالر بنتے تھے، آج بلین ڈالر یعنی دو سو ستر ارب روپے تک جا پہنچا ہے اور یہ سفر تاحال جاری ہے۔

جواب دیں

Back to top button