پولیو اور سنجیدہ اقدامات

باد شمیم
ندیم اختر ندیم
دنیا میں چیچک کے مرض نے سب کو ایک خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ بیسویں صدی میں چیچک سے پچاس کروڑ اموات ہوئیں ( ڈبلیو ایچ او) نے ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا جسم پر انمٹ نقوش چھوڑنے والے چیچک پر قابو پانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے دنیا کی کوششوں سے اس مرض کا مکمل خاتمہ ممکن ہوا تو اسکے بعد پولیو وائرس سامنے آگیا دنیا میں پولیو سے سالانہ لاکھوں بچے معذور ہوتے جاتے تھے معذوری کا خیال ہی بڑا اعصاب شکن تھا کہ کوئی اس حالت میں جیون کیسے کرے چیچک کے بعد دنیا کیلئے پولیو سب سے بڑا اور اہم مسئلہ تھا جسکے حل کے لیے کوششیں تیز کردی گئیں 1950ء کی دہائی میں پولیو ویکسین کی تیاری کے بعد اس مرض پر قابو پانے کی۔ امیدیں جاگیں لوگ محفوظ تصور کئے جانے لگے کہ اب کوئی اپاہج نہ ہوگا کوئی معذوری جیسا روگ نہ پالے گا اس کے بعد 1970ء اور 80ء کی دہائیوں میں پولیو کے خاتمے کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا جس کے بعد لوگوں میں پولیو کے خوف کی ہولناکیاں کم ہونے لگیں ۔
اس پر ملین ڈالرز خرچ ہوئے، پولیو سیکڑوں ممالک سے سکڑتا ہوا کچھ ممالک تک محدود ہو کر رہ گیا، عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کا آغاز ہوا تو دنیا نے بڑے جذبے اور خلوص سے اس پر کام کیا ایک جہد مسلسل سے دنیا پولیو پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئی حتیٰ کہ پولیو وائرس کی منتقلی دنیا کے صرف تین ممالک تک رہ گئی جن میں نائجیریا، افغانستان اور پاکستان شامل تھے تاہم اب صرف افغانستان اور پاکستان ہی باقی رہ گئے ہیں، اس کے علاوہ دنیا بھر میں پولیو کو ختم کیا جا چکا ہے، آپ پولیو کے حوالے دنیا کی سنجیدگی کا اندازہ اس ایک بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک طرف اسرائیل نے غزہ کو تباہ کرکے ایک چٹیل میدان بنا دیا اور فلسطینیوں کے قتل عام کاجو سلسلہ اسرائیل نے شروع کیا تھا وہ ہنوز جاری ہے لیکن اس کے باوجود جلتے مرتے کٹتے ہوئے بے گناہ نہتے فلسطینیوں پر ایک طرف گولہ و بارود کی بارش کی جارہی ہے تو دوسری جانب پولیو کے قطرے بھی پلائے جارہے ہیں ایک طرف اسرائیل کے مظالم سے فلسطین کے ہسپتال تک محفوظ نہیں حتیٰ کہ معالج بھی اسرائیلی درندگی کا شکار ہورہے ہیں لیکن ستم کی ایسی حالتوں کے باوجود وہاں پولیو پر مکمل کام کا آغاز ہوا اس خوف کے بغیر کے پولیو مہم میں شامل عملے کی زندگیاں بھی دائو پر لگی ہونگی انسداد پولیو کے حوالے سے پاکستان کی بات کیجئے تو ہر طرح کی عالمی امداد کے باوجود پاکستان میں اس پر پوری طرح قابو نہیں پایا گیا امسال بھی پاکستان میں پولیو کے 59کیس سامنے آگئے ہیں اب تک 59کیسز میں سے 26کا تعلق بلوچستان سے، 16کا خیبرپختونخوا، 15کا سندھ، اور ایک ایک کا تعلق پنجاب اور اسلام آباد سے ہے۔ جس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن اپنی ناکامیوں پر ہم نادم بھی نہیں اور نہ ہی سنجیدہ ہیں ہماری غیر سنجیدہ طبعی کا اندازہ کیجئے کہ ہمارا محکمہ صحت بھی پولیو مہم میں وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو اسے کرنا چاہئے گزشتہ برس ضلع نارووال کے حوالے سے اخبارات میں پولیو کے حوالے سے خبریں پڑھنے کو ملیں نہ صرف خبریں بلکہ نارووال میں پولیو پر کالم بھی پڑھنے کو ملے جن کے مطابق نارووال میں محکمہ صحت کی بتائی گئی کرپشن کا ذکر تھا خبروں کے مطابق پولیو مہم میں لگائی جانے والی ڈیوٹیاں ناتجربہ کار افراد پر مشتمل تھیں محکمہ صحت کے افسران کے گھروں میں کام کرنے والی خواتین کی ڈیوٹیاں لگادی گئیں یا سفارشی خواتین کو ڈیوٹیوں میں شامل کرلیا گیا ایسی خواتین جنہوں نے پانچویں کلاس سے آگے شائد سکول جانا پسند نہ کیا گیا ہو انہیں پولیو جیسی حساس ڈیوٹیاں دے دی گئیں جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ دس سے پندرہ سال قبل تو پولیو کی ڈیوٹیاں شائد محکمہ صحت کے ملازمین کی فری میں لگادی جاتی تھیں لیکن پھر اس کے بعد ان ڈیوٹیوں کے دو تین پھر چار پانچ ہزار ملنا شروع ہوئے لیکن جیسے ہی کوئی سال دو سال قبل پولیو کی ڈیوٹیوں کی رقم بارہ تیرہ ہزار پاکستانی روپے ہوئی تو محکمہ صحت نارووال کے ضلعی افسران نے من پسند ڈیوٹیاں لگانا شروع کر دیں من پسند ڈیوٹیاں لگانے کی وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ شائد اس میں آدھے پیسے ڈیوٹی کرنے والے کو دے کر آدھے خود رکھ لئے جائیں یوں لاکھوں کی کرپشن کی راہ ہموار ہوتی ہے ہم اس بات کو باطل ہی تصور کرتے ہیں لیکن ایک بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ محکمہ صحت ان ڈیوٹیوں پر اپنے ملازم کیوں نہیں لگاتا اگر محکمہ کے اپنے ورکرز کم پڑتے ہوں تو۔ محکمہ بہبود آبادی کی تجربہ کار ورکرز کو بھی ان ڈیوٹیوں میں شامل کرتا رہا ہے اور کچھ کرتا بھی ہے لیکن پھر یہ ہوا کہ محکمہ بہبود آبادی کی تجربہ کار کمیونٹی بیسڈ ورکرز کو نظر انداز کرکے ناتجربہ کار خواتین اور مردوں کو شامل کرلیا گیا جو سراسر زیادتی ہے ہماری معلومات کے مطابق جن افراد کی پولیو پر ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں ان کی ٹریننگ کو صرف ایک دن بلکہ ایک گھنٹے تک موقوف رکھا جاتا ہے جو ایک مذاق ہی سمجھا جائے گا۔
کچھ روز قبل بھی نارووال ضلع سے اخبارات میں یہ شہریوں کا مطالبہ پڑھنے کو ملا کہ پولیو ڈیوٹی پر صرف محکمہ صحت کے ملازمین کو لگایا جائے میرے خیال میں اگر محکمہ صحت یا محکمہ بہبود آبادی یا محکمہ صحت سے متعلقہ کسی دوسرے محکمہ کے ملازمین کو پولیو جیسی اہم ڈیوٹیوں میں شامل کیا جائے تو محکمہ صحت نارووال کے ضلعی افسران پر کوئی الزام ہی نہ لگایا جا سکے نارووال کے ڈپٹی کمشنر صاحب بڑے فرض شناس اور نفیس افسر ہیں پنجاب گورنمنٹ کی عوامی خدمات پر ایک مثبت کردار ہے حکومت کو چاہئے کہ محکمہ صحت کے افسران کی یقین دہانیوں یا کاغذی رپورٹس کی بجائے پولیو ڈیوٹیوں پر محکمہ صحت کے ملازمین کو مامور کرنے پر اقدامات اٹھائے جائیں اسکے علاوہ بھی پاکستان میں پولیو کیسز کی وجوہات ہونگی جسکا ادراک کرنا ہوگا موجودہ حکومت کی کئی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوا ہے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کے تعمیر و ترقی عوامی اقدامات لائق تحسین ہیں لیکن لازم ہے کہ حکومت ان افسران کا تعین کرے کو حکومتی مثبت اقدامات کے آڑے آرہے ہیں اور ان وجوہات کا بھی تدارک کرنا ہوگا جس سے پاکستان۔ انسداد پولیو پر ابھی تک کامیاب نہیں ہو پا رہا۔ حکومت پولیو کو دہشتگردی سے کم خطرناک نہ سمجھے جس طرح حکومت دہشتگردی کے معاملے میں پر عزم ہے ایسے ہی اسے پولیو کے حوالے سے کمر کسنا ہوگی
اب لندن سے ڈاکٹر فرزانہ فرحت کی لکھی نعت رسول مقبول
علاجِ غم کریں آقاؐ! مرے آنسو گہر کر دیں
مرے ویران گھر پر آپؐ رحمت کی نظر کر دیں
ز ما نے میں مسّرت آپؐ نے دی ہر دکھی دل کو
قبولیں اشک یہ ، میری عقیدت معتبر کر دیں
تھکن سے چور ہو ں لیکن مسافت اب بھی باقی ہے
کریں چشمِ کرم، آساں مرا ہر اک سفر کر دیں
زباں بھی گنگ ہے ، آقاؐ! مرے الفاظ بھی گو نگے
تسلی آپؐ دے کر لفظ میرے پُر ا ثر کر دیں
بچھے ہیں خار راہوں میں مرے دل کو نہیں راحت
مرے رستوں کو پھولوں سے بھری اک رہگزر کر دیں
مدینے کی گلی کی خاک سے مجھ کو ملے فرحت
وہاں مجھ کو بلا کر میری ہستی معتبر کر دیں





