Column

بھکاریوں پر پابندی لگائی جائے

تحریر: خالد غور غشتی
ملک بھر میں سڑکوں اور چوراہوں پر پیشہ ور بھکاریوں کی بھر مار ہے۔ ہر طرف بزرگ، بچوں کو اٹھائے خواتین اور معذور مانگتے نظر آتے ہیں۔ شہروں میں ایک بھکاری مختلف انداز اپنا کر ہزاروں روپے لوگوں کی جیبوں سے اچک لیتا ہے، جگہ جگہ لمبی لمبی قطاریں اور شب و روز ایک ہی کام مانگنا، مانگنا اور بس مانگنا۔ ویسے ان احمقوں سے کوئی پوچھے تم ان کو پیسے ہی کیوں دیتے ہو؟ کیا آپ کو علم نہیں، ’’ ایک بھکاری ایک ہزار سماجی مسائل کو جنم دیتا ہے‘‘۔
اگر ان بھکاریوں کو ہم یوں ہی دولت لُٹاتے رہے تو اعداد و شمار بتاتے ہیں، کچھ ہی عرصے تک آدھا ملک بھکاری بن جائے گا۔ ان بھکاریوں میں روز بہ روز جدت آتی چلی جا رہی ہے۔ آپ فیملی کے ہمراہ کھانا کھانے جائیں یا شاپنگ کرنے، پارک میں جائیں یا کسی بھی عوامی مقام پر یہ گداگر پیچھا نہیں چھوڑتے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں 3کروڑ 80لاکھ بھکاری ہیں، لاہور میں ایک بھکاری روزانہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے کم سے کم 1400روپے روزانہ لوگوں کی جیبوں سے ہتھیا لیتا ہے۔ پہلے پہل ٹانگ پھر بازو اور آخر میں بصارت سے محرومی کا بہانہ کر کے مانگنا جاتا تھا، اب بازو دیکھا کر ٹانگیں پھیلا کر اور آنکھیں گُھما کر بدمعاشی سے مانگا جاتا ہے۔ جو نہ دے اس کی جیب گھر تک بہ مشکل ہی سلامت جاتی ہے۔ کچھ بھکاریوں نے تو اپنا ایک مُستقل ٹھکانہ بنایا ہوا ہے کہ جہاں زیادہ لوگ آتے ہوں وہاں بھیڑ بھی زیادہ ہوتی ہے، اسی کا فائدہ اُٹھا کر یہ خوب مانگتے ہیں۔ کئی دفعہ تو یہ چھینا جھپٹی میں بھی لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
آج کل یہ دھندا خواتین نے بھی خُوب شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے یہ گھر گھر جا کر مانگتی تھی، اب واٹس ایپ اور فیس بک گروپس بنا کر معزور، بیمار، تنگ دست، لاچار اور بے روزگار بن کر خوب لوٹتی ہیں۔ چوں کہ ان کی کوئی روک تھام نہیں، اس لیے یہ با آسانی سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو ہسپتال پہنچا کر، کسی کو بھوک سے مار کر، کسی کی بے روزگاری کا اشتہار لگا کر لوٹ لیتی ہیں اور سادہ لوح عوام جو اپنے خون پسینے کی کمائی ان کو دیتے ہیں۔
بعض بڑے شہروں میں تو گداگر مافیاز کے بڑے بڑے منظم گروپ کام کر رہے ہیں۔ جو تین ہزار سے پانچ ہزار تک دیہاڑی نہ لگا لیں ان کی جان نہیں چھوٹتی۔ یہ مافیاز بچوں سے لے کر عورتوں اور بزرگوں تک کو استعمال کرتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کی سب سے وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے کے لوگ بھی مدرسے، مسجد اور کسی بھی دینی ادارے کے نام زکوٰۃ، خیرات، صدقات، وظیفے، نذرانے، پیری مریدی اور دین کی اشاعت کے نام پر لوگوں سے مانگتے ہیں اور یہ دھندا اس قدر وسیع ہے کہ آج اس دھندے کی لپیٹ میں اکثر مذہبی طبقہ آ چکا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے حضراتِ علما و مشائخ عمل میں آئیں۔
میں یہ نہیں کہتا سب لوگ بھکاری ہیں، کچھ ہوتے ہیں؛ جو واقعی ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن ان سفید پوش لوگوں کا حق یہ مافیا گروپ کھا جاتے ہیں۔ جن کو اصل امداد اور مال پہنچنا چاہیے، اُن تک پہنچ ہی نہیں پاتا اور یوں سفید پوش خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
معزز قارئین! کئی دیگر قومی مسائل کی طرح یہ بھی اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ آج پوری قوم اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ دنیا ہمیں بھکاری قوم کہنے لگی ہے۔ سعودی عرب، دبئی، یورپ اور انگلینڈ، سمیت دیگر ممالک سے ہماری بھائیوں کی ایسی ایسی بھیانک بھیک مانگنے کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں کہ ہمارا سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ گداگری کے خاتمے کے لیے ایسے سخت قوانین بنائے جائیں کہ جو بھی اس قبیح فعل میں مبتلا ہو، اُسے سخت سے سخت سزا، بھاری جرمانہ اور قیدِ بامشقت ہو۔

جواب دیں

Back to top button