شام میں عوامی انقلاب اور پاکستان کے حالات

میری بات
روہیل اکبر
شام میں انقلاب کے بعد حالات پر امن ہوگئے، 24سال سے اقتدار پر قابض بشارالاسد روس بھاگ گئے، شام میں کیا ہوا کیسے ہوا اور کیوں ہوا، اس پر مختلف لوگوں کی مختلف باتیں ہیں اور ہر فرد اپنے اپنے نظریے کے مطابق اس کے حق اور خلاف دلیلیں دے رہا ہے، مگر ان سب باتوں سے ہٹ کر شام اور پاکستان کے حالات میں بہت سی قدریں مشترک ہیں، وہاں بھی ظلم، زیادتی اور کرپشن اپنے عروج پر تھی اور یہاں بھی اپنے عروج پر ہے، وہاں کی جیلیں بے گناہ، مظلوموں اور معصوم بچوں سے بھری پڑی تھیں اور یہاں بھی ہماری جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے اور باغیوں کی فتح کے بعد شام کی جیلوں سے آزاد ہونے والے قیدیوں کی خوفناک داستانیں سامنے آرہی ہیں، جیلوں سے آزاد کیے جانے والے ہزاروں افراد اپنی قید کے دنوں کی داستانیں سنا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک قیدی نے بتایا کہ قید میں میرا کوئی نام نہیں تھا، بس ایک نمبر تھا، مجھے بشار حکومت نے اٹھا کر قید میں ڈال دیا اور میرے گھر والے سمجھتے رہے کہ میں مر گیا، میرے ساتھ بہت سے افراد کو بھی ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر جیل میں رکھا گیا، جنہوں نے کئی سال جیل میں گزار دئیے۔ آزاد ہونے والے کچھ اور افراد نے بتایا کہ انہیں اگر رہائی نہ ملتی تو پھر کچھ ہی دیر بعد پھانسی دی جانی تھی۔ شام کی جیل میں قید ایک اور قیدی علی حسن کو 39سال بعد جیل سے آزادی ملی، علی حسن کو 1986ء میں شامی فوجیوں نے شمالی لبنان میں ایک چیک پوسٹ سے گرفتار کیا تھا، ان کی عمر اس وقت 18سال تھی اور وہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے، گرفتاری کے بعد سے ان کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ سابق شامی صدر بشارالاسد کے انسانی مذبح خانے سے ایک چھوٹے بچے کو بھی بازیاب کرایا گیا، جس جیل میں یہ بچہ موجود تھا یہ بشار کی ایک بدنام زمانہ جیل کہلاتی ہے، بچے کے انسانی مذبح خانے سے باہر نکلنے کی افسوسناک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے۔ شام کی جیل سے آزاد ہونے والی خواتین کے الفاظ بھی سوشل میڈیا صارفین کو حیرت میں مبتلا کر رہے ہیں۔ میں یہ ویڈیو دیکھ رہا تھا تو پشاور کے اس بچے کی ویڈیو بھی میری نظروں کے سامنے چلنا شروع ہو گئی جو بتا رہا تھا کہ جب میں قید سے رہائی کے بعد گھر پہنچا تو ماں خوشی برداشت نہ کر سکی اور فوت ہوگئی، کیونکہ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں مر چکا ہوں۔ شام میں 2000ء کی دہائی کے دوران شام میں اغوا، من مانی حراست اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے جیسے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا تھا۔ شامی جیلوں کو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے بھر دیا گیا، شام کے جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے اراکین کو عام شہریوں کو طویل عرصے سے ماورائے عدالت کارروائیاں کرنے کے لیے وسیع مراعات حاصل تھیں اور انھیں مجرمانہ جرائم سے استثنیٰ حاصل تھا۔ 2008ء میں بشارالاسد نے اس استثنیٰ کو سیکیورٹی فورسز کے دوسرے محکموں تک بڑھا دیا، جس کے بعد وہاں کی خفیہ پولیس نے سیاسی مخالفین اور حکومت کے خلاف بولنے والوں پرنہ صرف تشدد کیا بلکہ کئی کئی سال قید میں رکھا اور پھر قتل کر دیا گیا۔ لبنان پر شامی قبضے کے بعد سے تقریباً 600لبنانی سیاسی قیدیوں کو سرکاری جیلوں میں ایک طویل عرصہ رکھا گیا، کچھ کو تو 30سال سے بھی زائد عرصے تک رکھا گیا، وہاں کی حکومت نے سیاسی مخالفین کے خلاف سفری پابندیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد این جی اوز کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ 2010ء میں شام نے یونیورسٹیوں میں چہرے کے نقاب پر پابندی لگا دی تھی، شام میں قیدیوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جس طرح ہمارے ہاں سیاسی قیدیوں پر غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے، ڈاکٹر شہباز گل سمیت اور بہت سے سیاسی قیدی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا درد ناک قصہ بھی بتا چکے ہیں۔2023ء میں کینیڈا اور نیدر لینڈز نے شام کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ)میں مقدمہ دائر کیا، جس میں پر تشدد کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ مشترکہ درخواست میں شامی حکومت پر شامی آبادی کو اجتماعی طور پر سزا دینے کی حکمت عملی کے طور پر ’’ ناقابل تصور جسمانی اور ذہنی درد اور تکلیف‘‘ دینے کا الزام لگایا گیا، لیکن روس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں بشار الاسد کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششوں کو ویٹو کر دیا۔ اسی طرح2000ء کی دہائی کے دوران بشار الاسد کا معاشی لبرلائزیشن پروگرام بدعنوانی اور اقربا پروری کی علامت بن گیا،، کیونکہ اس سکیم سے فائدہ اٹھانے والے اس کے وفادار تھے، جنہوں نے نجکاری کے زیادہ تر شعبوں اور کاروباری اثاثوں پر قبضہ کر لیا، جنہوں نے حکومت کو شامی عوام کی اکثریت سے الگ کر دیا، جس کے بعد محنت کش طبقے نے بڑے پیمانے پر آنے والی اس معاشی تبدیلی سے نفرت کرنا شروع کردی۔ بدعنوانی کا تسلسل، علویوں کا فرقہ وارانہ تعصب، اقربا پروری اور وسیع پیمانے پر رشوت خوری جو کہ پارٹی، بیوروکریسی اور فوج میں موجود تھی، عوام کے غصے کا باعث بنی، جس کے نتیجے میں 2011ء کا شامی انقلاب برپا ہوا، جو طویل عرصے سے حکومت کی استحصالی پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے تھے۔ شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں شام میں جنگی معیشت پروان چڑھی اس کے نتیجہ میں ریاست کے بڑھتے ہوئے کردار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار الاسد اور اس کی اہلیہ اسماء نے شام کے اقتصادی اثاثوں کو اپنے وفاداروں میں ضم کرنا شروع کر دیا، تاکہ پرانے کاروباری اشرافیہ کو بے گھر کر کے معیشت پر ان کی اجارہ داری قائم کی جائے۔ بشارالاسد کا بھائی مہر الاسد بھی شام کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والی کیپٹاگون ڈرگ انڈسٹری کی کارروائیوں کی نگرانی کر کے اور جنگ کے زیادہ تر سامان پر قبضہ کر کے دولت مند ہو گیا۔ حکمران جوڑے کے پاس شام کے جہاز رانی، رئیل اسٹیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور بینکنگ کے شعبوں کا بڑا حصہ تھا، وہاں پر بدعنوانی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ شام کو عرب دنیا کا سب سے کرپٹ ملک سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے سال تک بدعنوانی انڈیکس میں شام عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر تھا اور پاکستان بھی بدعنوانی میں بہت آگے۔ ہمیں بنگلہ دیش اور شام کے حالات سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، اپنی انا اور ضد کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر کے اقربا پروری، کرپشن اور چور بازاری جیسی لعنت کو ختم کرکے غریب عوام کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھانے کے لیے مل جل کر کوششیں کرنی چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر کسی کو کہیں بھاگنے اور چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔





