شام میں علوی فرقے کے اقتدار کا خاتمہ

تحریر: محمد ناصر شریف
1970 ء کی فوجی بغاوت، جس کی سربراہی بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کر رہے تھے، کے نتیجے میں علویوں نے شام کے اہم اداروں اور سکیورٹی کے محکموں میں اپنی اجارہ داری قائم کی اور بعدازاں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ حافظ الاسد ایک فوجی تھے، جنہوں نے تقریباً 30برس تک ملک پر حکمرانی کی جس کے دوران انہوں نے سوویت طرز کی مرکزی معیشت قائم کی اور اختلاف رائے کی آوازوں کو ایسا خاموش کرایا کہ شامی اپنے دوستوں سے سیاست کے حوالے سے مذاق کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔
حافظ الاسد 2002ء میں چل بسے تو پارلیمنٹ نے فوری طور پر صدر بننے کی عمر کی حد 40سے کم کر کے 34سال کر دی اور بعد میں ایک ریفرنڈم کے بعد جس میں بشار الاسد ہی واحد امیدوار تھے، انہوں نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی۔ بشار الاسد 2002ء میں قسمت کی دیوی کے مہربان ہونے پر اقتدار میں آئے۔ ان کے والد نے ان کے بڑے بھائی بَاسِل الاسد کو اپنا جان نشین مقرر کیا تھا، لیکن وہ 1994ء میں دمشق میں ایک کار حادثے میں چل بسے تھے۔
بشار الاسد غیر متوقع طور پر شام کے صدر بنے تو شامی عوام اور عالمی برادری کو امید تھی کہ اپنے والد کی تین دہائیوں تک ملک پر آہنی گرفت کے بعد وہ ایک نوجوان مُصلح ثابت ہوں گے، کیونکہ وہ صرف 34سال کی عمر میں اقتدار سنبھال رہے تھے اور مغربی تعلیم یافتہ ماہر امراض چشم ہونے کے ساتھ ساتھ نرم خو بھی تھے۔ لیکن جب مارچ 2011ء میں انہیں حکومت مخالف مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تو الاسد نے انہیں کچلنے کے لئے اپنے والد کے وحشیانہ ہتھکنڈوں کا ہی استعمال کیا۔ جیسے ہی یہ بغاوت خانہ جنگی میں بدلی تو انہوں نے اپنے اتحادیوں ایران اور روس کی حمایت کے ساتھ، حزب اختلاف کے زیرِقبضہ شہروں کو دھماکوں سے اڑانے کے لئے اپنی فوج اتاری۔ شام کی جنگ میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک اور جنگ سے پہلے کی دو کروڑ 30لاکھ کی آبادی میں سے نصف بے گھر ہو چکے ہیں۔ جیسے ہی اس بغاوت نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کی، لاکھوں شامی سرحد پار کر کے اردن، ترکی، عراق اور لبنان اور یورپ کی طرف بھاگ گئے۔ ان برسوں میں ان کا ملک ایک وحشیانہ خانہ جنگی کے نتیجے میں بکھر کر رہ گیا اور عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا۔شام میں اتوار کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے ڈرامائی خاتمے نے ان کی تقریباً 14سالوں تک اقتدار پر قابض رہنے کی جدوجہد کا ڈرامائی انداز میں خاتمہ کر دیا۔ بشار الاسد کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ54سال سے کم عرصے پر محیط ان کے خاندان کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی ہے جبکہ کوئی واضح جانشین نہ ہونے کی وجہ سے اس نے ملک کو مزید غیریقینی کی صورت حال کی جانب دھکیل دے دیا ہے۔
کچھ عرصے قبل تک لگتا تھا کہ بشار الاسد کی مشکلات کافی کم ہو گئی ہیں کیونکہ طویل لڑائی کے بعد حکومتی فورسز نے شام کے بیشتر علاقوں کا دوبارہ سے کنٹرول سنبھال لیا تھا جبکہ شمال مغربی علاقے اپوزیشن گروہوں اور شمال مشرقی علاقے کردوں کے کنٹرول میں تھے۔ عرب لیگ نے گزشتہ برس شام کی رکنیت بحال کر دی تھی اور سعودی عرب نے 12برس بعد مئی میں شام میں اپنے پہلے سفیر کی تقرری کا اعلان کیا تھا۔ تاہم نومبر کے آخر میں شمال مغربی شام میں مقیم اپوزیشن گروہوں کی طرف سے شروع کی گئی ایک حیرت انگیز کارروائی کے ساتھ ہی جیوپولیٹکل صورت حال تیزی سے بدل گئی۔ حکومتی افواج تیزی سے پسپا ہوئیں جبکہ بشار الاسد کے دیگر اتحادی روس اور ایران، یوکرین کی جنگ اور اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کی ایک برس سے جاری جنگوں کے باعث، مداخلت سے گریزاں نظر آئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بشارالاسد کی اقتدارپر گرفت کمزور ہوگئی۔بشار الاسد اور اُن کے والد علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں ایک سُنی اکثریتی ملک پر ایک ایسے فرقے کے پیروکاروں کی لگ بھگ 50 برس تک حکمرانی رہی جن کے عقائد کے بارے میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ اندازوں کے مطابق شام میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 10سے 13فیصد کے درمیان ہے تاہم اس کے باوجود گزشتہ 50سال سے یہ ایک سُنی اکثریتی ملک پر حکمرانی کر رہے تھے۔ علوی فرقے کو ابتدا میں فرقہ ’’ نصیریہ‘‘ کہا جاتا تھا اور اس کا آغاز شام میں نویں اور 10ویں صدی کے درمیان ہوا تھا۔ علوی کے معنی ’’ حضرت علیؓ کے پیروکار‘‘ کے ہیں۔ علوی فرقے میں داماد رسول حضرت علیؓ کی سب سے زیادہ تعظیم کی جاتی ہے اور انہیں پہلا امام تصور کیا جاتا ہے۔
شام پر باغیوں کے قبضے کے بعد صدر بشارالاسد فرار ہوکر ماسکو پہنچ گئے اور اپنے خاندان کے ساتھ سیاسی پناہ بھی لے لی، باغی گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ محمد الجولانی کی قیادت میں مخالف گروپ نے دمشق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد بشارالاسد دور کے وزیراعظم کو برقرار رکھا اور اقتدار کی منتقلی تک وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ حزب اللہ کے ہزاروں جنگجو بھی شام سے واپس چلے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکا، یوکرین، یورپی اور مغربی ممالک نے بشارالاسد حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ عرب ممالک نے محتاط رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔
باغیوں کے شام پر قبضے کے سرکاری اعلان کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے مجسموں کو گرانا شروع کردیا جبکہ عمارتوں پر لگی بشار کی تصاویر بھی پھاڑ دیں۔ شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر جشن مناتی رہی۔ شام کی جنگ کی نگرانی والی برطانوی تنظیم نے بتایا ہے کہ شامی باغیوں کی جانب سے 11 روز قبل ایک بڑی کارروائی شروع کرنے کے بعد سے اب تک 138شہریوں سمیت900سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس کا اختتام دمشق پر ان کے کنٹرول میں ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں 380شامی فوجی اور اتحادی جنگجو اور 392باغی شامل ہیں۔ دمشق پر قبضہ کرنے والے گروپ ہیئت تحریر الشام کا شامی تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکی اور دیگر کئی ممالک نے ایچ ٹی ایس کو دہشتگرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔ہیئت تحریر الشام کا وجود سنہ 2011ء میں ’’ جب النصرہ ‘‘ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروہ کو بنانے میں کردار بتایا جاتا ہے۔ اس گروہ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔ 2016ء میں ’’ جب النصرہ‘‘ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے ہیئت تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔ القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد ہیئت تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام میں بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔
ویسے شام میں باغیوں کی پیش قدمی کو روس اور شامی حکومت کے ساتھ ساتھ ایران کے لیے بھی ایک ’’ دھچکا‘‘ قرار دیا جارہا ہے، خطے میں ایران اور روس کا اثر و رسوخ کم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا یہ بیان کہ نہ روس، نہ ایران اور نہ ہی حزب اللہ شامی حکومت کا دفاع کر سکی ہے امریکا شام میں شراکت داروں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گا، امریکا خطے میں خطرات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرے گا۔ بہت کچھ بتارہا ہے۔







