ColumnImtiaz Aasi

جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( ساتوں حصہ )

 

امتیاز عاصی
جیلوں میں قیدیوں کو کھانا فراہم کرنے کے لئے لنگر خانوں کا بندوبست ہوتا ہے جہاں پکائی کا کام قیدیوں سے ہی کرایا جاتا ہے۔ روٹی پکانے کے بڑے بڑے پلانٹ نصب ہیں روٹی پکائی کے لئے باقاعدہ آٹے کے پیڑے کا وزن ہوتا ہے۔ ہر سپرنٹنڈنٹ جیل کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے وہ معمول کے مطابق قیدی اور حوالاتی بیرکس ، سزائے موت کے سیلوں، منشیات بیرکس اور جیل کے ہسپتال کا ہفتہ وار دورہ کرے جس کا مقصد جیل کی صفائی کے ساتھ قیدیوں اور حوالاتیوں کے مسائل سے آگاہی حاصل کرکے انہیں موقع پر حل کرنے کی ہدایت دینا ہے۔ جیلوں میں سپرنٹنڈنٹس کے علاوہ باہر سے آنے والے دورہ کے دوران قیدیوں حوالاتیوں کو یہ بات قبل از وقت باآور کرا دی جاتی ہے کوئی غلط قسم کا سوال انہوں نے نہیں کرنا ہے۔ کئی موقعوں پر آئی جی جیل خانہ جات کے دورہ کے دوران جن قیدیوں نے انتظامی معاملات میں خرابی بارے کوئی سوال کیا تو آئی جی کے جیل سے باہر نکلنے کی دیر ہوتی ہے ایسے قیدیوں کو دوسری جیلوں میں شفٹ کر دیا جاتا ہے جسے جیلوں کی زبان میں چالان کہا جاتا ہے۔ قانونی طور پر قیدیوں کے چالان نکالنے کی منظوری آئی جی جیل خانہ جات سے لینا ہوتی ہے جو جیل سپرنٹنڈنٹ سے ترقی پا کر آئی جی کے عہدے پر پہنچا
ہوتا ہے البتہ سزائے موت کے قیدیوں کو دوسری جیلوں میں بھیجنے کے لئے کچھ وقت لگ جاتا ہے کیونکہ انہیں شفٹ کرنے کی منظوری صوبائی سیکرٹری داخلہ سے لینا پڑتی ہے۔ قارئین کو پڑھ کر حیرت ہو گی جن قیدیوں کو دوسری جیلوں میں بھیجا جائے ان کی واپسی اس جیل میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک جہاں سے قیدی کا چالان نکلا ہوتا ہے اس جیل کا سپرنٹنڈنٹ این او سی جاری نہ کرے۔ بسا اوقات کوئی قیدی سپرنٹنڈنٹ کی منشاء کے خلاف واپس اپنی ضلعی جیل آجائے تو اسے جس گاڑی میں لایا گیا ہوتا ہے اسی گاڑی میں واپس اسی جیل بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ آیا ہوتا ہے۔ صوبائی محکمہ داخلہ کو قیدیوں کے چالان اور ان کی واپسی کے نظام میں تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔ بعض جیل افسران جن قیدیوں سے رشوت نہ ملے انتظامی امور کا عذر پیش کرکے ان کے چالان نکال دیتے ہیں حالانکہ کسی قیدی نے کوئی جرم کیا ہو تو اس کا قیدی کے ہسٹری کارڈ پر اس کا تفصیل سے اندراج ضروری ہے۔ ہم لنگر خانوں کی بات کر رہے تھے لنگر پر پکنے والی روٹی اور سالن قیدیوں میں تقسیم سے قبل
ہر روز جیل کے میڈیکل افسر کے پاس چیکنگ کے لئے بھیجا جاتا ہے جب تک میڈیکل افسر کھانے کی کلیرنس نہ دے بیرکس میں نہیں بھیجا جاتا ۔ عجیب تماشا ہے میڈیکل افسر کے پاس بھیجا جانے والا سالن بہت عمدہ ہوتا ہے جیسے ہی میڈیکل افسر سے واپس آتا ہے قیدیوں میں تقسیم سے پہلے سالن کی دیگوں میں مزید پانی ڈال کر سالن کی مقدار بڑھا دی جاتی ہے۔ ایک سنٹرل جیل کے میڈیکل افسر نے کھانے پر اعتراض لگا کر سپرنٹنڈنٹ جیل کو بھیجا تو سپرنٹنڈنٹ جیل نے آئی جی سے کہہ کر اس کا تبادلہ کرا دیا۔ جن ہیڈ وارڈرز کو لنگر خانوں میں ماہانہ بنیادوں پر تعینات کیا جاتا ہے ان سے پہلے سب اچھا طے کر لیا جاتا ہے وہ ماہانہ کتنے لاکھ روپے دے گا۔ لنگر خانوں پر جیل گودام سے آنے والا راشن تول کر پورا پورا بھیجا جاتا ہے لیکن بعد ازاں لنگر پر متعین ہیڈ وارڈر راشن بچا کر واپس گودام بھیج دیتا ہے جسے بعد ازاں باہر فروخت کر دیا جاتا ہے کہیں جیلوں میں ملازمین کو چوری کیا جانے والا راشن جیل سے باہر بھیجتے پکڑا بھی گیا۔ لنگر خانوں کی مشقت جیل میں کسی قیدی کے لئے مشکل ترین مشقت ہوتی ہے اسی لئے جن قیدیوں کو لنگر پر مشقت کے لئے ڈالا جاتا ہے مالی لحاظ سے اچھے ہوں تو سب اچھا کر لیتے ہیں جو کم از کم ماہانہ آٹھ ہزار روپے ماہانہ ہوتا ہے۔ سینٹرل جیلوں میں دو تین سو کے قریب قیدی سب اچھے پر ہوتے ہیں جن سے وصول ہونے والا سب اچھا لاکھوں میں ہوتا ہے۔ لنگر پر مشقت کرنے والے کسی قیدی کو آرام کی ضرورت ہو وہ انچارج ہیڈ وارڈر کو دو تین سو روپے دے کر ریسٹ لے سکتا ہے۔ قابل ذکر پہلو یہ ہے جیلوں کے لنگر خانوں میں صفائی قابل دید ہوتی ہے۔ جن جگہوں پر کھانا پکایا جاتا ہے دیگیں انتہائی صاف ستھری ہوتی ہیں۔ جن بالٹیوں میں قیدیوں کے لئے بیرکس میں کھانا بھیجا جاتا ہے اسٹیل کی صاف ستھری ہوتی ہیں۔ قیدیوں کی آسانی کے لئے اب نیا بندوبست ٹرالیوں کا کر دیا گیا ہے اب انہیں بالٹیاں اٹھانی نہیں پڑتی ہیں۔ جن قیدیوں کو مشقت کے لئے جیل کی مسجد کی صفائی کے لئے مامور کیا جاتا ہے وہ بھی سب اچھے کے بغیر نہیں ہوتی اس مقصد کے لئے قیدیوں کو مخصوص رقم دے کر مسجد میں بھیجا جاتا ہے۔ جیل کے سینٹرل ٹاور جسے چکر کہا جاتا ہے وہاں قیدیوں کے ناموں کو حروف تہجی سے پتہ چلانے کے لئے ایک بڑ ا رجسٹر جسے ردیف کہتے ہیں پر لکھائی کا کام کرنے والے قیدی کو کئی ہزار روپے دے کر اپنی مشقت ڈلوانی پڑتی ہے۔ جب قیدیوں کی بیرکس میں گنتی ڈالی جاتی ہے تو ان کے ناموں کا اندراج اسی رجسٹر پر کیا جاتا ہے چنانچہ ردیف پر مامور قیدی اپنا چائے پانی نکال لیتا ہے۔ ویسے تو جب نئے حوالاتی جیل آتے ہیں انہیں من پسند بیرکس میں رکھنے کا سب اچھا دینا ہوتا ہے۔ جب حوالاتی عدالت سے سزایاب ہو کر قیدی کے طور پر جیل آتے ہیں انہیں اگلے روز سپرنٹنڈنٹ کے روبرو ملاحظہ میں پیش کیا جاتا ہے جہاں ان کی دوبارہ گنتی قیدی بیرک میں ڈالی جاتی ہے۔ قیدیوں کو من پسند بیرکس میں قیام کرنے کے لئے ایک مرتبہ پھر سب اچھا کرنا پڑتا ہے جس کے بعد انہیں من پسند بیرکس میں رکھا جاتا ہے اہم بات یہ ہے جب کسی مقدمہ میں دو چار ملزمان جیل آجاتے ہیں انہیں مختلف بیرکس میں رکھا جاتا ہے، جس کے بعد وہ جیل ملازمین سے سب اچھا کرکے ایک ہی مقدمہ کے تمام ملزمان ایک ہی بیرک میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔ (جاری)

جواب دیں

Back to top button