آسمانوں سے اتارے ہوئے روشن چہرے

شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
موت کسی اپنے کی ہو یا غیر کی ، ایک لمحے کے لیے تو انسان کو ہلا کر ہی رکھ دیتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے تو انسان سن ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس کا زندگی پر سے یقین ٹوٹ سا جاتا ہے۔ دنیا اپنی بے ثباتی کو آشکارا کرتی ہے تو انسان سوچنے لگتا ہے کہ بس یہی تھی زندگی اور اس کی حقیقت کہ ایک جھٹکے میں انسان کا نام چھین لیا ، مرتبہ اچک لیا ، مٹی میں سب کچھ ملا ڈالا ، کہانی ختم کر ڈالی، ہیرو کا مار ڈالا اور سوالوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا کر دیا۔
یہ زندگی سوال ہے تو ہر گھڑی سوال ہے
گھڑی کا روشنی سے رشتہ کیا کمال ہے؟
کیا یہی ہے وہ دنیا، وہ زندگی جس کے لیے انسان نے اپنا دیکھا نہ پرایا۔ آگے بڑھنے کے لیے وہ سب کو پیچھے دھکیلتا چلا گیا۔ وہ اس کے پیچھے یوں اندھا دھند بھاگا جیسے وہ رکے گا تو کچلا جائے گا، پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو پتھر کا ہو جائے گا
حالاں کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر بار پیچھے مڑ کر دیکھنا انسان کو پتھر کا کر دے ، کبھی کبھی سامنے کا منظر بھی اسے پتھرا دیا کرتا ہے۔ اور پھر موت تو مسلسل آدم بو آدم بو کرتی آدم زاد کے پیچھے لگی ہوئی ہے ۔ زندگی موت کے سائے میں جواں ہوتی ہے
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ انسان کو رزق اس طرح ڈھونڈتا ہے جیسے اسے موت ڈھونڈتی ہے۔ سو رزق کے لیے اپنا ایمان برباد مت کر۔
اور اب ۔۔ اب وہ اس حد تک بے بس ہے کہ ناک سے مکھی تک نہیں اڑا سکتا۔ ان سلا کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر اپنی برہنگی دور نہیں کر سکتا۔ اپنی آخری آرام گاہ کا انتخاب کرنا تو درکنار ، خود چل کر وہاں تک نہیں جا سکتا۔ موت اگر جوانی کی ہو تو انسان کو آٹھ اٹھ آنسو رلانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
علی حسن گیلانی ایک معروف سیاسی و سماجی شخصیت تھے۔ ایک مذہبی خانوادے سے ان کا تعلق تھا۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں تھی تو ایسے لوگ بھی کثیر تعداد میں تھے جو ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
گزشتہ صبح ایک حادثے میں رحلت کی خبر سن کر سارا شہر سناٹے میں آ گیا۔ لوگ دکھ بھرے انداز سے اس واقعے کا ذکر کر رہے ہیں۔ سب کے سب حیرت زدہ ہے ، غم زدہ ہیں ۔ اور کیوں نہ ہوں شہر کا شہزادہ چلا گیا ۔ شہر کی نمایاں ترین ہستی یوں اچانک رخصت ہوئی ہے ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹیں اور دکانیں بند ہو گئیں ۔ شہر پر سوگواری کہ کیفیت طاری ہو گئی ۔
ایک اپنا سارے شہر کو ویران کر گیا
آج شہر بھر میں ایک ہی تذکرہ ہے
ہر شخص کے ذہن پر ایک ہی شخص چھایا ہوا ہے ، زبان پر اسی کا تذکرہ ہے ۔ کیا دوست کیا دشمن سبھی دکھی دکھائی پڑتے ہیں ۔ سب اس کی الم ناک رحلت پر کف افسوس ملتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ موت کسی وجہ کی محتاج نہیں مگر حادثے تو سامنے کا واقعہ ہے ۔ اب کوئی منی ٹرک والے قصور وار قرار دیتا پایا جاتا ہے حالاں کہ ٹرک وہ اپنی سائیڈ پر رکا ہوا کھڑا تھا۔ کوئی ڈرائیور پر الزام دھرتا دکھائی دیتا ہے کہ اسے اتنی تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی، حالاں کہ وہ ڈرائیور نہیں تھا، کہ اسے چھٹی دی گئی تھی یہ ان کا ہم زلف تھا جو راستے سے اتنا واقف نہ تھا۔ کوئی سر ہلاتے ہوئے یہ کہتا نظر آتا ہے کہ کیا ضرورت تھی رات کے تین بجے سفر کرنے کی۔ ( حالاں کہ وہ کے ایف سی پر کھانا کھانا اور لینے گئے تھے )
خیر جتنا منہ اتنی باتیں۔ مگر اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ ذرا اندازہ تو کیجئے کہ دو بہنوں کا سہاگ اجڑا ہے ۔
حادثوں کو روکا نہیں جا سکتا کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
جانے والے چلے جاتے ہیں مگر، وہ اپنے پیچھے یادیں چھوڑ گئے ہیں۔ اچھی بھی کم اچھی بھی۔ ان کو یاد کیا جاتا رہے گا۔ میرا ان سے تعلق رسمی بھی نہیں تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ میں ان سے ایک بار ملا تھا ۔ میرے دوست کیفی بخاری ایک ٹورنامنٹ کروا رہے تھے تو ڈونیشن کے لیے ان کے پاس گئے تھے۔ انہوں نے بڑی محبت کا سلوک کیا ۔ یہ انسان دوستی ان کا خاصہ تھی۔ وہ سچ میں ایک عوامی آدمی تھے۔ علاقائی سیاست کا ایک مضبوط ستون ۔ حلقے کی عوام کے خیر خواہ تھے۔ ان کا حلقہ اثر وسیع تھا ۔ ان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ وہ دو ہزار دو میں پہلی بار سیاسی افق پر ابھرے اور چھا گئے ۔ انھیں دو بار قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ آپ اپنے بل پر جیتتے تھے ۔ اپنے پروں پر پرواز کرتے تھے ۔ عجیب اتفاق ہے کہ آپ کے والد سید مختار گیلانی کا بھی عین جوانی میں ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا ۔ اور اب وہ بھی ایک حادثے کے نتیجے میں رحلت فرما گئے ۔ ان کی فوتیدگی سے خانوادہ گیلانیہ دکھ میں ڈوبا ہوا ۔ ان کا خاندان ہی کیا شہر بھر کی فضا دکھی ہے ، غم سے بوجھل ہے ۔
خالد شریف سے الفاظ میں
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
واقعی ایک بڑی شخصیت تھے اور
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شاید امام احمد بن حنبل نے کہا ’’ ہمارے جنازے طے کریں‘‘، ان کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ اوچ شریف کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بہت سے لوگ آ کہاں سے گئے۔ ہر طرف انسانی سر دکھائی دیتے تھے۔ آنکھیں اشک بار تھیں اور دل محبت سے بے قرار ، ان کے جانے پر غم سے دوچار ۔ یکم دسمبر کا دن اوچ شریف کے عوام کبھی نہیں بھولے گے ۔ اس دن انہوں نے شہر کے ایک نام ور سپوت کا کھویا ہے۔ جس کا خلا کبھی پر نہیں ہو گا۔ جس کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی رہے گی۔ جس کی عوامی سیاست ہمیشہ اوچ کے باسیوں کو رلاتی رہے گی۔ ان کی ایک حادثے میں المناک رحلت ، اوچ شریف کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے ۔ جو بھلائے نہیں بھولے گا۔ وہ مر کر امر ہو گئے ۔ یادوں میں رچ بس گئے۔
وہ روشن چہرہ بظاہر چھپ سا گیا ہے
مگر تصور کے پردے پر مسکرا رہا ہے
شاعر نے سچ کہا ہے
آسمانوں سے اتارے ہوئے روشن چہرے
کھینچ لیتی ہے زمیں اور یقیں ٹوٹتا ہے
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جوار سید الشہداء میں جگہ عنایت فرمائے ، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔





