ColumnImtiaz Aasi

خوارج کی سرگرمیوں میں تیزی

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے خوارج کی ابتدا سرکار دوعالمؐ کے دور سے ہوئی۔ خوارج نے ہی مولا علیؓ اور سیدنا عثمان بن عفانؓ کو شہید کیا۔ خوارج کے فتنے کی سرکوبی کے لئے دور صحابہ ؓ میں کوشش ہوئی اس کے باوجود خوارج بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسلام میں کسی بے گناہ کا قتل پوری بنی نوع انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ قتل جیسے سنگین جرم کی سزا اسلام آئین میں موت ہے۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پھانسی جنرل پرویز مشرف کے دور میں دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی سزا کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کا اعلان کیا مگر حکومت سزائے موت ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ پاکستان پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا موت کی سزا ختم کرنے کا ہمیشہ دبائو رہا ہے جس کے نتیجہ میں ریاست پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے ساٹھ دہشت گردوں کو ابھی تک مہمان بنا کر رکھا گیا ہے۔ یہ دہشت گرد جہاں سرکاری تنصیبات پر حملہ کرنے میں ملوث ہیں وہاں بے شمار بے گناہ لوگوں کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔ حالیہ وقتوں میں مملکت میں دہشت گردی میں تیزی آئی ہے روز بروز خوارج کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلوچستان اور کے پی کے دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا دہشت گردوں نے پنجاب کی طرف رخ کر لیا ہے۔ میانوالی جو کبھی کے پی کے کا حصہ تھا دہشت گردوں نے بلوچستان، کے پی کے کے بعد پنجاب کی طرف رخ کر لیا ہے۔ خوارج کی پاکستان میں آمد کے بلوچستان اور کے پی کے دو راستے ہیں۔ بلوچستان کا ضلع شیرانی جو ژوب کے قریب واقع ہے وہیں سے سٹرک افغانستان کو جاتی ہے۔ افغانستان سے ایک دریا ژوب کی طرف الٹا بہتا ہے اسی دریا پر پل پر واقع سٹرک افغانستان کو جاتی ہے گویا خوارج کو ان علاقوں سے پاکستان آمد میں خاصی آسانی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے خوارج ژوب اور شیرانی کے علاقوں کو بار بار دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ افغانستان سے بلوچستان تک طویل سرحد واقع ہونے اور سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود خوارج کی کسی نہ کسی راستے پاکستان آمد ہو جانے سے بلوچستان اور کے پی کے ان کی سرگرمیوں کا مرکز ہے اب انہوں نے پنجاب کے تھانوں کو نشانہ بنانے کی ٹھان لی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے خوارج کو بیرونی طاقتوں کی آشیرباد کے بغیر دہشت گردی ممکن نہیں ہماری سیکورٹی فورسز بہادری سے فتنہ خوارج کا خاتمہ کرنے میں لگی ہے اس کے باوجود کہیں نہ کہیں سے خوارج مملکت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت ناجائز اسلحہ کی روک تھام کے لئے جلد ایک آرڈننس لا رہی ہے جس میں ناجائز اسلحہ رکھنا ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے گا۔ بلاشبہ پنجاب حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے تاہم اس کے ساتھ حکومت کو اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ہماری پولیس اپنی روایت کے مطابق کارروائی ڈالنے کے لئے شہریوں کو ناجائز اسلحہ کے مقدمہ میں گرفتار کر لیتی ہے لہذا حکومت کو ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم کو ناقابل ضمانت بنانے کے ساتھ اس کے منفی پہلو کو ملحوظ خاطر ضرور رکھنا ہوگا۔ گوافغانستان کی طالبان حکومت بارہا اس بات کی یقین دہانی کرا چکی ہے وہ اپنی سرزمین دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دے گی اس کے باوجود دہشت گردوں کی پاکستان آمد اس امر کی واضح دلیل ہے دہشت گردوں کا مرکز افغانستان ہے۔ ہم دہشت گردی کے سلسلے میں بھارت کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ چند سال قبل بھارت کے عسکری شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ افسر کلبھوشن کو ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوتے گرفتار کیا گیا تھا۔ دہشت گرد بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کو ملانے والی چیک پوسٹ درزندہ کو کئی بار نشانہ بنا چکے ہیں۔ پاکستان حکومت دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان میں موجودہ ان لاکھوں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس کرنا ہوگا جو گزشتہ کئی عشروں سے مملکت میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ عجیب تماشا ہے نہ ان پناہ گزینوں کے پاس پاکستان کے قومی شناختی کارڈ ہیں نہ اقوام متحدہ کے افغان مہاجرین کے لئے قائم ادارے یو این ایچ آر کے پی آو آر کارڈ ہیں اور نہ کوئی اور دستاویز ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں غیر قانونی افغانوں کی ملک بدری کے لئے آپریشن کیا گیا جس میں چند لاکھ افغان واپس چلے گئے ۔ حقیقت تو یہ ہے ملک کا چپہ چپہ افغان مہاجرین سے بھرا پڑا ہے اگر مقامی پولیس صدق دل سے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو مملکت سے نکالنے کا عزم کری تو یہ بات یقینی ہے کم از کم غیر قانونی افغان شہریوں سے وطن عزیز خالی ہو سکتا ہے۔ ہماری وزارت داخلہ کو اس اہم مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی پر ضرور توجہ دیں مگر غیرقانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے انتظامات ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے وہ کسی مشکوک شخص کو دیکھیں تو سیکورٹی فورسز اور پولیس حکام کو اس کی اطلاع دیں ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ عام شہریوں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے طالبان حکومت کئی بار اس بات کا اعلان کر چکی ہے وہ اپنی سرزمین کسی ک دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کرنے دے گی مگر یہ بھی حقیقت ہے افغان طالبان اور تحریک طالبان نے باہم مل کر امریکی افواج کا مقابلہ کیا اور انہیں افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا لہذا طالبان حکومت اور ٹی ٹی پی دونوں ایک ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی میں تیزی کے بعد ضروری ہو گیا ہے جن دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں نے موت کی سزا سنائی ہے انہیں فی الفور پھانسی دی جائے۔ صدر مملکت سے ان ساٹھ دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں خارج ہونے کے باوجود انہیں پھانسی نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات درست ہے پاکستان کو اپنی برآمدات کے سلسلے میں یورپی یونین نے ڈیوٹی سے استثنیٰ دے رکھا ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں دہشت گرد، دہشت گردی کرتے رہیں اور ہم یورپی یونین کو دیکھتے رہیں۔

جواب دیں

Back to top button