فوج کے سہارے انقلاب نہیں آیا کرتے

تحریر: رفیع صحرائی
اگر پی ٹی آئی کے ورکرز جناب عمران خان کو ابھی تک انقلابی لیڈر سمجھتے ہیں تو واقعی وہ بہت بھولے اور معصوم ہیں۔ عمران خان کی یہی سب سے بڑے خوش قسمتی ہے کہ ان کے پارٹی ورکرز ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اتنی زیادہ کہ ان کی یہ محبت اب عقیدت میں بدل چکی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ محبت ہو یا عقیدت اس کا براہِ راست تعلق دل سے ہوتا ہے۔ ایسے جذبات میں عقل کو پاس آنے کی زحمت نہیں دی جاتی۔ جب بھی بندہ اپنی بے پناہ محبت یا عقیدت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے سود و زیاں کا حساب کرنے بیٹھتا ہے تو محبت کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ محبت کو دوام دینے کے لیے پاسبانِ عقل سے دوری لازمی ہوتی ہے۔
کس کو اس بات کا نہیں پتا کہ جناب عمران خان 2018ء میں ایک دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آئے تھے۔ لاکھ کوشش کے باوجود اور راتوں رات مخالف امیدواران کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے علاوہ بعض مخالف امیدواران کے عین وقت پر ٹکٹ واپس دلوانے کے باوجود جب حکومت سازی کے لیے ایم این ایز مطلوبہ تعداد میں جیت نہ سکے تو جناب جہانگیر ترین کے جہاز نے اپنی کرشماتی اڑان بھری تھی اور عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز کر دیا گیا۔
اپنے دورِ حکومت میں عمران خان پاک فوج کے گُن گاتے رہے۔ اس کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کا فخریہ اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر فوج کے حق میں مہم بھی چلوائی اور تین سال سات ماہ اکیس دن تک اسی فوج کے بل بوتے پر حکومت بھی کرتے رہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی برملا اعتراف کیا کہ ایوان میں قانون سازی کرتے وقت فوج ہی ان کی حکومت کو ممبران کی تعداد پوری کر کے دیتی تھی۔ اس بات سے بھی سبھی آگاہ ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں قومی اسمبلی کے معاملات ایک حاضر سروس کرنل چلاتے رہے ہیں۔
یہ عمران خان کی بدقسمتی رہی کہ وہ اپنے لانے والوں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی چھتری سر سے اتری تو انہیں پتا چلا کہ دھوپ، بارش اور اولوں سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے طور پر تو کوئی بندوبست کیا ہی نہیں تھا۔ اپوزیشن کا تعاون کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ ہر مرتبہ انہوں نے حقارت سے جھٹک دیا تھا۔ اپوزیشن کو موقع مل گیا اور آئینی طریقے سے تحریکِ عدمِ اعتماد کے ذریعے انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
اقتدار سے محرومی کو عمران خان نے جی کا روگ بنا لیا اور اسی فرسٹریشن میں 9مئی کر ڈالا۔ ان سے بار بار کہا گیا کہ وہ سیاسی قوتوں سے ڈائیلاگ کریں مگر انہوں نے ہر مرتبہ اس سے انکار کیا۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ وہ جانتے ہیں مذاکرات کی میز پر سیاست دانوں کا مقابلہ نہ کر پائیں گے۔ اپنے مخالفین سے ہار جائیں گے۔ وہ ایک ہی بات کہتی ہیں کہ مذاکرات صرف فوج سے کیے جائیں گے۔ اسی ضد کی وجہ سے 9مئی کے بعد اپنی پارٹی سے سانحہ 26نومبر بھی کروا بیٹھے ہیں۔
ان کے ورکرز اور مقلدین کو فخر ہے کہ ان کا لیڈر ڈیل نہیں کر رہا جبکہ 24نومبر کے احتجاج کے مطالبات اس دعوے کی سراسر نفی کرتے ہیں۔ اس احتجاج کے نتیجے میں وہ اپنے تین مطالبات منوانا چاہتے تھے۔ پہلا مطالبہ عمران خان اور سانحہ 9 مئی کے گرفتار شدگان کی رہائی۔ دوسرا مطالبہ ( بقول ان کے) اپنے چھینے گئے مینڈیٹ کی واپسی اور تیسرا مطالبہ نئے انتخابات۔
آپ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کوئی انقلابی لیڈر اپنی رہائی کا مطالبہ کرتا نظر نہیں آئے گا۔ یہی تو ڈیل ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار سے بظاہر اختلاف کرنے والے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کے خواہاں ہیں۔ دراصل یہ بھی ڈیل کی ہی خواہش اور کوشش ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی سیاسی پارٹی کا گزارا نہیں ہے۔
سیاست میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی کے اقتدار کے دنوں میں ن لیگ کے خاتمے کی باتیں کی جاتی تھیں۔ آج پی ٹی آئی پر پابندی کی قرار دادیں اسمبلیوں سے پاس ہو رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے آنے والے وقت میں اقتدار کا ہُما پھر عمران خان کے سر پر بیٹھ جائے۔ اس کے لیے وہ بار بار فوج کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہیں علم ہے کہ اس کے بغیر وہ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے ساتھ ڈیل کر کے اقتدار میں آنے والا انقلابی ہو سکتا ہے؟۔





