Column

کفارہ ضروری ہے

تحریر :سید ہ عنبرین

ماضی کی کسی بات کا حال سے مقابلہ نہیں لیکن کئی معاملات میں مشابہت ہے، پس تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ انقلاب فرانس ایک روز میں برپا نہیں ہوا تھا، اس کی کئی تہیں تھیں۔ اس دور کی حکمران اشرافیہ نے پیرس کے مرکزی علاقے میں ایک خصوصی جیل بنا رکھی تھی، شاہی خاندان اور شاہی فرمان سے اختلاف کرنے والوں، اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو یہاں قید کر دیا جاتا اور ان پر بے تحاشا ظلم ڈھائے جاتے۔ انقلاب فرانس کے پہلے مرحلے میں غیض و غضب میں ڈوبے لوگ گھروں سے باہر نکلے تو انہوں نے اس جیل کا رخ کیا جہاں کچھ لوگ قید تھے، اس جیل کی حفاظت کیلئے بندوق بردار پہرے دار تعینات کئے گئے تھے، جنہوں نے جیل کی طرف بڑھنے والوں پر سیدھے فائر کئے، لوگ پھر بھی آگے بڑھتے رہے، اس پیش قدمی میں 90افراد مارے گئے لیکن ان کے ساتھی پہرے داروں کو قتل کر کے قیدیوں کو چھڑانی میں کامیاب ہو گئے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے، حکومتیں ایک قانون، ایک نظم و ضبط کے تحت چلتی ہیں، داد رسی کیلئے ادارے موجود ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ سر اٹھائے کھڑا ہے، کون کیا کر رہا، کون اصولوں کو پامال کر رہا ہے اور کیوں۔ احتجاج اس جگہ، اس عمارت، اس دفتر کے سامنے کیا جاتا ہے جیسے طاقت کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں جب کبھی عوامی سطح پر احتجاج ہوا، احتجاجی مرکزی شاہراہوں سے ہوتے ہوئے اسمبلی ہال تک پہنچتے نظر آئے، بعض اوقات کچھ روز کا دھرنا بھی دیا گیا لیکن اسمبلی ہال کے سامنے دھرنا دیئے مظاہرین سے ہمیشہ گفتگو کی گئی، مظاہرین کی بات سنی گئی، ان پر بے دریغ گولی نہیں چلائی گئی، بعض عوامی تحریکوں میں احتجاج کرنے والوں پر گولی بھی چلائی گئی لیکن اس کے بعد بھی مذاکرات ہی ہوئے۔ احتجاج کی نوبت اس وقت آتی ہے جب حق سلب کر لیا جائے، عدالتیں انصاف مہیا نہ کر سکیں، پھر اس کے بعد احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ ڈی چوک کے سامنے پارلیمنٹ ہے، جمہوری نظام میں یہ طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے، اس کے سامنے احتجاج سے کوئی قیامت برپا نہ ہونا تھی، لیکن صرف ناک کا مسئلہ بنا لیا گیا، کسی بھی شہر کی چار مرکزی شاہراہیں بند ہو جائیں، مظاہرین اس پر دھرنا دے دیں تو زیادہ موثر احتجاج ہو سکتا ہے لیکن معاملہ صرف ناک کا تھا۔
بات سادہ سی ہے مگر کوئی نہ سمجھنا چاہے تو اس کا کوئی علاج نہیں، بشریٰ بیگم کو احتجاجی جلوس کی قیادت اور ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کا ٹاسک اس لئے دیا گیا کہ ماضی کے قائدین کبھی وہاں تک نہ پہنچے تھے، شاید مصلحتوں کا شکار رہے لیکن بدنیت وہ بھی نہ تھے، وہ دو دھاری تلوار پر چل رہے تھے، ان کا کام زیادہ مشکل تھا، صوبہ خیبر کی حکومت کو سنبھالنا، برقرار رکھنا بھی ضروری تھا۔ بشریٰ بی بی کو گھمسان کا رن پڑنے سے قبل بہانے سے وہاں سے دور کیا گیا، ان کی گاڑی پر کیمیکل پھینکا گیا، جس سے ونڈ سکرین اندھی ہو گئی، وہ گاڑی تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئیں، ان کا ڈرائیور ان کے حکم کے تابع رہا۔ دوسری گاڑی کا ڈرائیور کسی اور کے کہنے میں تھا، وہ انہیں وہاں سے دور لے گیا، جس کے بعد بتیاں بجھا دی گئیں۔ بشریٰ بی بی اگر وہاں موجود ہوتیں اور ماری جاتیں تو قیامت برپا ہو جاتی، پنجاب پر دو ٹوک الزام لگتا کہ پی ٹی آئی راہنما کی بیوی کو قتل کر دیا گیا۔ علی امین گنڈا پور ٹھیک کہتے ہیں اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو پختون روایات کا خون ہو جاتا کہ پختون اپنے لیڈر کی بیوی کو تنہا چھوڑ کر چلے گئے یا اس کی حفاظت میں ناکام رہے۔ علی امین گنڈاپور نے ایک بڑا سانحہ ہونے سے بچایا ہے، وہ عقل مندی سے کام نہ لیتے تو آج پنجاب پورے پاکستان سے اسی طرح منہ چھپاتا پھرتا جس طرح لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے تمام اکابرین اور ورکرز بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ بھٹو کو پھانسی بھی راولپنڈی میں دی گئی تھی۔ علی امین گنڈاپور کو بھی نہایت طریقے سے وہاں سے ہٹایا گیا۔ اگر صوبہ خیبر پختونخوا کا منتخب وزیراعلیٰ اپنے ساتھیوں سمیت وہاں مارا جاتا تو اس خبر کے ساتھ ہی وہ قیامت آ جاتی جس کا ابھی تک کوئی تصور کرنے سے قاصر ہے۔
لال آندھی آئی اور گزر گئی ہے، لیکن اس کے نشان اسلام آباد کے درو دیوار سے بہ صد کوششیں مٹائے نہ جا سکیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جہاں پھانسی دی گئی وہ پھانسی گھاٹ بعد ازاں ڈھا دیا گیا، آج اس کی جگہ ایک سرسبز قطعہ ارضی ہے، لیکن وہاں سے جو بھی گزرتا ہے وہ خوب جانتا ہے یہاں کبھی ایک پھانسی گھاٹ تھا، جہاں ایک وزیراعظم کو اس کے ناکردہ گناہ کے الزام میں دار پر لٹکا دیا گیا تھا، اس کے اہلخانہ کو اس کا چہرہ دیکھنے کی اجازت نہ دی گئی، پھر اسے سینگنوں کے سائے میں دفن کر کے اس کی قبر پر پہرہ لگا دیا گیا، مردہ بھٹو کا کس قدر خوف تھا کوئی آج اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد 10برس صبح شام پیپلز پارٹی کو توڑنے، تباہ کرنے کی کوششیں جاری رہیں لیکن اسے ختم نہ کیا جا سکا، انتخابات ہوئے تو واضع نظر آ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی دو تہائی اکثریت لے جائے گی لہٰذا بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنائی گئی، پھر ایک انتظام کے تحت لولی لنگڑی حکومت ان کے سپرد کی گئی، لیکن اسے بھی مختلف الزامات کے تحت 5برس کی مدت مکمل نہ کرنے دی گئی۔ باقی سب تاریخ ہے، جسے کوئی بدل نہ سکے گا۔
آج پی ٹی آئی کو اسی فارمولے کے تحت ٹکڑوں میں بانٹے، کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جو کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔ انتخابات جب بھی ہوئے ایک ہی دھڑا ہو گا جو سب کا دھڑن تختہ کر دے گا۔ گوہر خان چیئرمین پی ٹی آئی ہوش مند شخصیت ہیں، انہوں نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے، انہیں اور بعض دوسرے لیڈروں کو مشکوک بنانا ان کے مخالفین کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پارٹی کارکنوں کو ان سے متنفر کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی تاکہ وہاں بھی اپنے آدمی لائے جا سکیں، کارکنوں کو اس سازش سے باخبر رہتے ہوئے اپنی موجودہ قیادت پر متحد ہونا چاہئے، کچھ پیادے، وزیر کی جگہ اور کچھ فیلے بادشاہ کی جگہ لینے کیلئے بے تاب ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب کراچی سے خیبر تک پارٹی کارکنوں میں عدم اعتماد کی لہر دوڑ جائے، جو پارٹی ممبران قومی و صوبائی اسلام آباد نہیں پہنچ سکے، انہیں چاہیے قربانی دینے والوں کے گھروں پر جائیں، تعزیت کریں اور بے خانماں خاندانوں کی دل جوئی کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کریں۔ موجودہ حالات میں یہی کفارہ ہے، ادائیگی کفارہ ضروری ہے۔ جے یو آئی اور پیپلز پارٹی بھی ساتھ مل کر 26ویں ترمیم کا کفارہ ادا کر سکتی ہے، شاید انہیں پھر اس کا وقت نہ ملے۔

جواب دیں

Back to top button