Column

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

تحریر : علیشبا بگٹی
تاخیر کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم قدرت کی طرف سے تاخیر اور دوسری قسم کسی انسان کا دیر یا تاخیر سے کوئی کام کرنا۔
انسان سوچتا ہے کہ تاخیر کا مطلب ناممکن یا مشکل ہے، حالانکہ تاخیر تو خدا کی طرف سے مہلت ہوتی ہے تاکہ انسان اسے اپنی رضا کے لئے منا سکے۔ اور اگر دیری کا مطلب کا انکار ہی ہوتا تو وہ اتنے لمبے انتظار کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے کیوں ملواتا ؟ اور اگر اس نے اپنے بندوں کو آزمائش کے دوران تنہا ہی چھوڑنا ہوتا تو وہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کو تپتے ہوئے ریگستان کے بیچ و بیچ پانی کیوں پلاتا؟، اگر اس نے اتنے صبر کے بعد بھی اپنے بندے کے لئے کوئی صلہ نہ رکھا ہوتا تو وہ حضرت ایوب علیہ السلام کو اٹھارہ سال بعد بیماری سے شفا اور حضرت زکریا علیہ السلام کو عمر کے بالکل آخری حصے میں اولاد سے کیوں نوازتا ؟۔
تاخیر دراصل صبر کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ بے شک وقت گزرنے کے ساتھ تکلیف سہنا آسان نہیں ہوتا، مگر انسان جتنا زیادہ صبر کرے گا، ٔ اس کا انعام اتنا ہی دگنا کر کے دے گا۔ وہ ساری تلخیوں کا مداوا کرے گا، ان کڑوے گھونٹوں کا بدلا دے گا، جو انسان نے صبر اور مسکراہٹ کے ساتھ پیے تھے۔
غالب کہتا ہے کہ
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبیِ تقدیر بھی تھا
ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی
آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
تاخیر زندگی میں کبھی مفید تو اکثر نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ انسان جب بروقت صحیح فیصلہ نہیں کرتا پھر تاخیر کے سبب وہ اچھے نتائج سے محروم رہتا ہے۔ کچھ لوگ تاخیر کے معنی نہیں سمجھتے ہی نہیں جیسے ایک شاعر کہتا ہے کہ
ہوسکتا ہے ابھی نہ سمجھ پائو تم تاخیر کا دکھ
ہو سکتا ہے تمہارے پائوں پہ گزرا نہ ہو زنجیر کا دکھ
تم اندھیرے میں رہے کہاں ہو ابھی۔
تم نے دیکھا کہاں ہے تنویر کا دکھ۔
جب مہینے کا آخری تاریخ دروازے پر دستک دیتی ہے، تو ہم تیزی سے ایک دن میں وہ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ہم ایک ہفتے کے لیے آسانی سے کر سکتے تھے۔ نتیجے کے طور پر، انسان تیزی سے اور جلدی سے ضروری کام کرنے کا انتظام کرتا ہے۔ ماہرین نفسیات اس رجحان کو ’’ تاخیر‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ تاخیر ازل سے انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ یہ سستی یا مصروفیت کی وجہ سے اکثر انسانی عادت ہے۔ مگر ہر انسان دیر ہوجانے پر دل میں سوچتا ہے شاید میں نے آخر تک تاخیر کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ میں کسی بھی چیز سے بچ سکتا ہوں۔ پھر کسی کام کے ڈیڈ لائن کے قریب آنے کے احساس پر
گھبراتا ہے۔ تو مزید سوچتا ہے کہ اگر میں نے پہلے سے تیاری شروع کر دی ہوتی تو شاید میں بغیر کسی دبا کے تربیت سلیقے اور آرام سے وقت پر اپنا کام یا ٹاسک مکمل کر لیتا۔
تاخیر کیوں ہوتی ہے ؟ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے اوور لوڈ ، پرفیکشنزم ، کام کرنے کو من نہ کرنا ، وقت کا نہ ملنا وغیرہ ۔ تاہم تاخیر کا حل یہ ہے کہ بڑی چیز کو چھوٹے حصوں میں توڑ دیں۔ آپ اپنے کام کی جگہ کو منظم کریں، جگہ تقسیم کریں، اپنے نظام الاوقات کے بارے میں سوچیں، اور کام کے دوران وقفے لیں۔ ایک تاخیری محقق بنیں۔ اس موضوع پر کتابیں دریافت کریں جیسے واقعق نیل فیور کا ’’ تاخیر کو روکنے کا آسان طریقہ‘‘ اور لینورا ایون جین برکا کا ’’ تاخیر‘‘۔
منیر نیازی کا مشہور غزل ہے کہ
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی، یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

جواب دیں

Back to top button