Column

اردو زبان اور مولوی

تحریر : حافظ محمد قاصم مغیرہ
بھارتی شاعر جاوید اختر نے ایک تقریب میں فرمایا کہ اردو مولویوں کی زبان نہیں ہے۔
یہ درست ہے کہ اردو کسی ایک خاص طبقے کی زبان نہیں ہے۔ ادیب، شاعر، فلسفی، سیاست دان، اداکار، صحافی، وکیل اور ایک عام آدمی سمیت جس کا جی چاہے اردو سیکھے، اردو پڑھے اور اردو بولے لیکن اردو زبان اور مولوی کے درمیان اجارہ داری کی فصیل کھڑی کر دینا قرین انصاف نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولوی کے ذکر کے بغیر براعظم پاک و ہند میں اردو زبان کے ارتقاء کی کہانی ادھوری رہے گی۔ اردو زبان کیلئے علماء کی خدمات کا مختصر تذکرہ پیش خدمت ہے۔
احمد رضا بریلوی کو اردو زبان پر غیر معمولی دست رس حاصل تھی۔ ان کا نعتیہ اور غزلیہ کلام اردو زبان و ادب کے ہر طالب کو لازماً پڑھنا چاہئے۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہیں عربی، فارسی اور ہندی پر بھی مہارت حاصل تھی۔ ان کے نعتیہ کلام میں ان زبانوں کی آمیزش سے اردو میں بہت سی منفرد تراکیب کا اضافہ ہوا۔ ایک ایک مصرعے میں تین تین زبانوں کو پرو دینا اور وہ بھی اس طرح کہ اجنبیت کا گماں نہ ہو اور دیگر زبانوں سے آنے والے الفاظ اردو کے ہی معلوم ہوں، احمد رضا بریلوی کا ہی خاصہ ہے۔ مولانا عبدالستار نیازی نے بھی احمد رضا بریلوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نعت گوئی کے فن سے اردو کے گلشن کی
آب یاری کی۔ نعت گوئی کے ساتھ ساتھ ان کی خطابت بھی اردو میں مہارت کا ایک شاہ کار ہے۔ پیر کرم شاہ الازہری نے اردو زبان میں تفسیر اور سیرت نگاری کرکے عمدہ نثر سے اردو کے کینوس میں نئے رنگ بھر دیئے۔
پیر نصیر الدین نصیر کی رباعیوں، غزلوں، حمد اور نعتوں کے تذکرے کے بغیر اردو کی ترویج و اشاعت کا باب نامکمل رہے گا۔ پیر نصیر الدین نصیر کی شاعری میں روایت اور جدت کا امتزاج ملتا ہے۔ مولانا اکرم اعوان کی شاعری بھی اردو غزل کا ایک اہم باب ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی کی خطابت بھی اردو کے ارتقاء کا ایک اہم باب ہے۔ مفتی منیب الرحمان اردو تقریر و تحریر میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ مفتی منیب الرحمان کی کالم نویسی بھی عمدہ نثر اور لاجواب طرز استدلال کا مرقع ہے۔ غلط العام پر گہری نظر رکھتی ہیں۔
شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی سیرت نگاری، خطوط، تذکرے اور سوانح عمریاں اردو زبان کا ایک سنہرا باب ہیں۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی تفسیر اور سیرت نگاری سلاست اور روانی کا مرقع ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی فصیح و بلیغ اور معرب و مفرس اردو کے ذریعے عروس اردو کی مانگ بھر کے ایک لاجواب کارنامہ سرانجام دیا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے تصنیف و تالیف اور سیرت نگاری سے اردو کے دامن کو وسعت دی۔
اردو کی ترویج و اشاعت میں مفتی محمد شفیع کا نام سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مفتی محمد شفیع کی تفسیر معارف القرآن اردو دان حلقوں میں پڑھی جانی والی ایک عمدہ تفسیر ہے۔ ان کے صاحب زادے مفتی محمد تقی عثمانی نے ترجمے، تفسیر اور شاعری سے آسمان اردو کو دھنک کے رنگوں سے بھر دیا۔ مولانا زکی کیفی کی حمد، نعت اور غزل اردو زبان و ادب کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ مفتی ولی رازی کی تحریر کردہ غیر منقوط سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اردو زبان پر ان کی غیر معمولی مہارت کا بین ثبوت ہیں۔
مولانا سید دائود غزنوی کی تقاریر سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اردو زبان اس طرز خطابت پر ہمیشہ
نازاں رہے گی۔ ان کے صاحب زادے سید ابوبکر غزنوی اور پوتے جنید غزنوی بھی خطابت کا ایک عمدہ انداز رکھتے ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے ایک ایسے وقت میں کہ جب شورش کاشمیری اور سید دائود غزنوی کی خطابت کا طوطی بولتا تھا، خطابت میں نام بنایا اور ان مٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی زندگی میں تو ان کی خطابت کا ڈنکا بجا، دنیا سے ان کے رخصت ہوجانے کے سینتیس برس بعد بھی منبر و محراب اور در و دیوار میں ان کی خطابت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ کیا عمدہ طرز تقریر تھا کہ گھن گرج کے ساتھ ساتھ میر و غالب اور اقبال کے اشعار امڈے چلے آرہے ہیں۔ فروغ اردو کے باب میں مولانا اسماعیل سلفی کی تحریر و تقریر اور مولانا اسحاق بھٹی کی خاکہ نگاری، سوانح عمری اور تاریخ کا ذکر ضرور آئے گا۔ اردو زبان کی کھیتی کی سیرابی کا ذکر ہو تو ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ کی شیریں، میٹھی اور دھیمی تقریروں کے ساتھ ساتھ ان کی عمدہ نثر کا ذکر ضرور آئے گا۔
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تقریر و تحریر، دونوں میں بے مثل تھے۔ بولتے تو سماں باندھ دیتے، لکھتے تو دل موہ لیتے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے انتہائی عمدہ نثر اور انشاء پردازی سے اردو کے گیسو سنوارے۔ الفاظ کے چنائو، جملوں کی بنت اور مضبوط استدلال مولانا کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ مولانا کی تحریریں موثر ابلاغ کی عمدہ مثال ہیں۔
قاضی حسین احمد اردو زبان پر قابل رشک دست رس رکھتے تھے۔ تحریر اور تقریر، دونوں محاذوں میں اپنا سکہ منوایا۔ اردو کے فروغ کیلئے مولانا منظور نعمانی، امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر خالد مسعود، سید منور حسن، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، خلیل احمد حامدی، صدر الدین اصلاحی، یوسف اصلاحی، حافظ صلاح الدین یوسف، ابو الحسن ندوی، عبد الحمید سواتی، سرفراز خان صفدر اور مولانا زاہد الراشدی کی بھی گراں قدر خدمات ہیں۔
براعظم پاک و ہند میں دعوت و تبلیغ اور اردو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں علاقائی زبانوں کی اہمیت مسلم لیکن اگر اردو کو دعوت و تبلیغ کی زبان قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ براعظم پاک و ہند میں اردو زبان میں بلند پایہ تفاسیر، کتب سیرت اور فہم دین کی بے شمار کتب اردو میں لکھی گئی ہیں۔ جہاں روایتی ادیبوں نے ناول، افسانہ نگاری، شاعری اور تنقید لکھ کر اردو کے گلشن کی آب یاری کی، وہیں علماء نے بھی دینی ادب تخلیق کرکے اردو کی زلفیں سنواریں۔ دونوں طبقات کو کسی تعصب کے بغیر اردو کے فروغ میں دوسرے کی خدمات کو سراہنا چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button