ColumnRoshan Lal

جرم، سزا اور سماجی انصاف

تحریر : روشن لعل
’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کو اس زمین کا اولین قانون تصور کیا جاتا ہے۔ تہذیب کے ارتقائی سفر میں صدیوں پہلے اس قانون کو متروک قرار دے دیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے کسی بھی دور میں اس پر عملدرآمد نہ رک سکا۔ گو کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ جیسا قانون متروک ہونے کے باوجود اب بھی کسی نہ کسی حالت میں رائج ہے مگر یہ تاریخ کا جبرہے یا تہذیب کے ارتقا کی مجبوریاں ہیں کہ طاقتوروں کو اس قانون سے مستفید ہونے کے لیے چونکہ اور چنانچہ جیسے جواز کی آمیزش سے مزید قانون سازی کرنی پڑتی ہے۔ اس بحث کو کسی اور سمت میں جانے سے روکنے کے لیے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ زیر نظر تحریر کا محرک اس موقف کا گاہے بگاہے ہونے والا ابلاغ ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ سزائوں کو سخت ترین کیے بغیر جرائم کی روک تھام ممکن نہیں ہوسکتی۔ جرائم کے تدارک کے لیے جو لوگ سخت سزائوں کے نفاذ پر یقین رکھتے ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تہذیب کے ارتقائی سفر میں دنیا کب کا وہ موڑ مڑ چکی جس کے بعد سخت سزائوں کی بجائے معاشرتی و معاشی اصلاحات کو جرائم میں کمی کا علاج تسلیم کرنا شروع کر دیا گیا۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو معاشی و معاشرتی اصلاحات کے ذریعے جرائم میں کمی کا تصور یورپی تعلیمات سے ماخوذ لگے مگر یہاں اولین مسلم حکمرانوں کی جو تاریخ پڑھائی گئی اس میںیہ بات واضح طور پر درج تھی کہ ان حکمرانوں کے نزدیک چوری کی سزا تو ہاتھ کاٹنا ہی تھی مگر ان کا یہ بھی ماننا تھا کہجس انسان کے ہاتھ کام نہ ملنے کی وجہ سے چوری پر مجبور
ہوئے ہوں ان کے لیے یہ سزا وہ دوہرا ظلم ہو گی۔ اس تاریخی حوالے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی سزا کا تعین کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے کہ جس ریاست میں یہ سزا نافذ کی جارہی ہے اس کی فلاحی نوعیت کیا ہے۔
ہمارا سماج کیا ہے اور اس میں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ جیسا دنیا میں متروک سمجھا جانے والا قانون کس حد تک نافذ ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہمارے سماج کی تمام حقیقتیں عیاں ہونے کے باجود یہاں ایسی سزائوں کے نفاذ کا مطالبہ کسی المیے سے کم نہیں جنہیں بیرونی دنیا بہت پہلے ظالمانہ تصور کر چکی ہے۔ جہاں تک ظالمانہ سزائوں کے عملی اظہار کا تعلق ہے تواکثر لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون جب متروک نہیں ہوا تھا تب بادشاہوں، راجوں مہاراجوں ، آمروں، جاگیردار و ں اور آقائوں کے ایما پر غلاموں یا غریب رعایا کو اپنی کردہ یا ناکردہ غلطیوں پر کیسی ظالمانہ اور دردناک سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یہ سزائیں ایسی تھیں جن کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ مثال کے طور پر غلطیوں پر لوگوں کو ہاتھیوں کے پائوں کے نیچے روندنا، قصور وار قرار دیئے گئے لوگوں کا پائوں میں رسی باندھ کر سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کے ذریعے گھسیٹا جانا، زندہ جسموں پر گہرے گھائو لگا
کر گدھوں کے غول کے سامنے پھینکنا اور ان کے نوچے جانے کا تماشا دیکھنا، زندہ انسانوں کو سزا کے طور پر بھرے مجمع میں خونخوار بھوکے جانوروں کے سامنے پھینک دیا جانا اور کسی زندہ انسان کو ساپنوں اور بچھوئوں سے بھری ہوئی بوری میں بند کر دینے جیسی ظالمانہ سزائوں کا ذکر تاریخ میں کئی جگہ ملتا ہے۔ ان ظالمانہ سزائوں کا سامنا اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی نسبت باغیوں کو زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ سٹیڈیم نما احاطوں میں اس طرح کی ظالمانہ سزائوں پر عملدرآمد لوگوں کو تفریح فراہم کرنے کا ذریعہ بھی ہوتا تھا مگر تفریح کی فراہمی کی بجائے سزا دینے والوں کا اصل مقصد عوام کو یہ سبق سکھانا تھا کہ انہیں دیکھ کر لوگ بغاوت پر آمادہ ہونے کا خیال کبھی ذہن میں نہ آنے دیں۔ رعایا کو سبق سکھانے کے لیے دی جانے والی ظالمانہ سزائوں کے باوجود بھی بغاوتیں کسی دور میں بھی نہ رک سکیں ۔ تہذیب کے ارتقائی سفر کے دوران پھر ظلم پر یقین رکھنے والے حکمرانوں کی کی جگہ وہ لوگ عوام کے نمائندے بن کر سامنے آئے جو سماج میں توازن قائم کرنے کی خواہاں تھے۔
سماج میں توازن قائم رکھنے والوں نے سزائوں کو سرے سے ختم تو نہیں کیا لیکن ان میں ظلم اور جبر کی بجائے اصلاح کے عناصر شامل کر لیے۔ ان لوگوں نے صرف اصلاحی عناصر کو ہی سزا کا حصہ نہیں بنایا بلکہ سماج میں اپنے سوچ کا ابلاغ اس مقصد کے تحت کیا کہ لوگوں کے جرائم کی طرف راغب ہونے کا امکان کم سے کم ہو تا چلا جائے۔ یورپ اور خاص طور پر سکنڈے نیوین ممالک میں اس امر کی واضح مثالیں موجود ہیںکہ وہاں معاشی و معاشرتی اصلاحات نافذ ہونے کے بعد جرائم کی شرح بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ یورپ کی مثالوں کے جواب میں کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ تو یورپ سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے مگر وہاں اس طرح کی سزائیں اب بھی رائج ہیں جنہیں ظالمانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ میں اب بھی یورپ کے برعکس سزائیں رائج ہیں مگر اس کے ساتھ ایک سچ یہ بھی ہے کہ جن سزائوں کو یورپ میں ظالمانہ کہا جاتا ہے امریکہ میں ان کے بد ترین نفاذ کے باوجود وہاں جرائم کی شرح کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ یہ امریکہ ہی ہے جہاں ہر سال مزید قلعہ نما جیلیں بنانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ امریکہ کو تو خیر سپر پاور ہونے کا زعم ہے اور اس زعم میں مبتلا اس کے حکمران یہ نہیں چاہتے کہ انہیں کسی کی پیروی کرنے والا ملک سمجھا جائے مگر وہاں کے دانشور اب یہ مطالبہ شدت کے ساتھ کرنے لگے ہیں کہ امریکہ میں جرائم پر قابو پانے کے لیے وہاں یورپ کا ماڈل اختیار کیا جانا چاہیے۔
مسلم ممالک میں سے سعودی عرب میں اس وقت سب سے زیادہ سخت سزائیں رائج ہیں مگر سخت سزائوں کے باوجود وہاں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ سعودی عرب کے حوالے سے پاکستان میں کم ہی اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ اب وہاں کی اتھارٹی کو بھی سخت سزائوں پر عمل کرنے میں ماضی کی نسبت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سعودی عرب میں جو کوئی نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ بنے اس کی سزا موت ہوتی ہے۔ وہاں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو بھی نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسرا الغمغام نامی ایک خاتون سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں قید ہوئی جس کے لئے موت کی سزا یقینی سمجھی جارہی تھی مگر بیرونی دبائو کی وجہ سے اس کا سر تن سے جدا کرنا ممکن نہ ہو سکا۔ جو لوگ پاکستان میں بھی سعودی عرب میں رائج سزائوں کا مطالبہ کرتے ہیں کیا انہوں نے کبھی یہ سوچنا گوارا کیا کہ جن سزائوں پر علمدرآمد سعودی عرب جیسے معاشی طور پر مستحکم ملک کے لیے مشکل ہوتا جارہا ہے ان پر بیرونی دنیا کیا ہمیں کیسے آزادی سے عمل کرنے کی اجازت دے گی۔ اس طرح کے عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری مقتدرہ کو بہتر معاشرے کی تعمیر کے لیے سخت سزائوں کے نفاذ کی بجائے سماجی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button