بیلا روس کب اور کتنے ارب ڈالر؟

صورتحال
سیدہ عنبرین
بیلا روس کے صدر کا تین روزہ دورہ پاکستان اپنے اختتام کو پہنچا ہے، دورہ بہت کامیاب رہا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر، ایسا نہ ہوتا تو ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے، پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا، اس کی تلافی میں کئی برس لگ جاتے اور نصف پاکستان کو یہ دورے پڑتے رہتے کہ ملک جس بدحالی کا شکار ہے اس کی وجہ پی ٹی آئی کا احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنا تھا۔ جناب الیگزینڈر کا شینکو صدر بیلا روس سے پہلے ان کا 75رکنی وفد پاکستان پہنچا تو تاثر ابھرا کہ شاید چین کے بعد بیلا روس ہی ایک اہم ترین ملک ہے، جس کے صدر اور اس کے اتنے بڑے وفد کے دورے کے بعد اب پاکستان کے بھاگ یقیناً جاگ جائیں گے۔
بیلا روس کے بارے میں عام پاکستانی کے پاس خاطر خواہ معلومات نہیں ہیں، وہ بس اتنا ہی جانتا ہے کہ روس کے ٹوٹنے سے قبل وہ عظیم روسی طاقت کا حصہ تھا، اس کا رقبہ پاکستان کے سب سے چھوٹے صوبے کے برابر ہے، وہ عالمی رینکنگ میں جمہوری اعتبار، قانون اور اپنے آئین کی بالادستی کے اعتبار سے قریباً 150ویں نمبر پر ہے، ہم ان سے بہت آگے ہیں، اپنے یہاں قانون اور آئین جن حالات سے دوچار ہیں ان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، بیلا روس میں صورتحال کیا ہو گی، وہ ان ملکوں کو اسلحہ بیچتے ہیں جنہیں روس فروخت نہیں کر سکتا۔ جناب الیگزینڈر کا شینکو طیارہ لینڈ ہونے کے بعد باہر آئے تو نیوکلیئر پاکستان کے وزیراعظم اپنی کابینہ کے اہم ارکان کے ساتھ ان کے استقبال کیلئے موجود تھے، جنہیں دیکھ کر معزز مہمان کس قدر حیران اور مسرور ہوئے ہونگے یہ تو وہ اپنے ملک پہنچ کر کئی انٹرویو میں بتائیں گے، لیکن ان کے استقبال کیلئے موجود ہر پاکستانی انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ معزز مہمان ٹریک سوٹ میں طیارے سے باہر آئے، جہاں سفارتی آداب کے مطابق موسم کی نزاکتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میزبان سوٹ ٹائیوں میں ملبوس ان کے خیر مقدم کیلئے آگے بڑھے، چہ میگوئیاں جاری ہیں اور عرصہ دراز تک جاری رہیں گی کہ شاید ان کے سٹاف نے انہیں پاکستان کے بارے میں ڈھنگ سے بریف نہ کیا تھا، یہ بھی ممکن ہے وہ طبیعت کے اعتبار سے اس درجہ کھلے ڈھلے واقع ہوئے ہوں جیسے ہمارے ایک سابق وزیراعلیٰ پنجاب ہوا کرتے تھے، جو نیلی قمیض کے ساتھ پیلی پتلون اور سفید شرٹ کے ساتھ برائون پینٹ بڑے شوق سے زیب تن کیا کرتے تھے۔ ان کی بشرٹس خاص ڈیزائن کے مطابق تیار کرائی جاتی تھیں، جن پر فوجی وردی سٹائل کے شولڈر اور پاکٹس ہوتی تھیں، انہیں اس زمانے میں شاید خیال نہیں آیا ورنہ ایک آئینی ترمیم بہت آسان تھی، جس کے مطابق سول ڈریس کی بشرٹ کے شولڈرز پر فوجی سٹائل کے رینک لگانے کی اجازت حاصل کی جا سکتی تھی۔ بعض افراد کا خیال ہے جناب الیگزینڈر کے پاس ڈھنگ کا جو سب سے اچھا سوٹ تھا وہ انہوں نے سفر میں خراب ہونے کے خدشے کے سبب نہیں پہنا اور سوچا کہ پاکستان پہنچ کر نہا دھو کر شام یا رات کی کسی تقریب میں پہنیں گے۔ پاکستان میں یہ فیشن عرصہ دراز تک رائج رہا، تصور یہ تھا کہ سفر میں پرانے اور عام سے کپڑے پہنیں جائیں کیونکہ دھول، مٹی اور پسینے سے لباس خراب ہوتا ہے، یہ زمانہ جی ٹی ایس کا تھا، جب سفر کیلئے موجود بسوں کی کھڑکیوں کے نصف سے زائد شیشے ٹوٹے ہوئے ملتے تھے، جبکہ ٹرین کے ڈبوں کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا، بوگیوں کے شیشے سلامت ملتے تو پنکھے خراب ہوتے تھی، لہٰذا کھڑکیوں کے شیشے گرا کے بیٹھنا محال اور کھول کر سفر کرنا عذاب سے کم نہ تھا، فلائنگ کوچز اور بعد ازاں ایئر کنڈیشنڈ بسیں آئیں تو سفر قدرے صاف ستھرا اور آسان ہوا، جس نسل نے سرکاری بسوں میں اور ٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبوں میں سفر نہیں کیا اس نے خواہ دنیا دیکھ لی ہو مگر بہت کچھ نہیں دیکھا۔
پاکستانی حکام اور بیلا روس سے آئے وفد کے ارکان نے متعدد ایم او یوز پر دستخط کئے ہیں، جن کی تفصیل کے مطابق فارماسوٹیکل اور ٹائرز کی فراہمی اہم ہے جبکہ ہم بیلا روس کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جن میں توانائی، انفراسٹرکچر، ٹیلی کمیونیکیشن، منزلز اور زراعت جیسے شعبے شامل ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے عہد میں بیلا روس کا ایک دورہ کیا تھا، جس کے اختتام پر ایسے ہی نیک جذبات اور خواہشات کا ذکر سننیں میں آیا تھا، لیکن مشترکہ منصوبوں کے نام پر آج کوئی ایک منصوبہ نہیں جو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ نصف صدی قبل روسی ٹریکٹر اور زرعی مشینری روس سے درآمد کی جاتی۔ آج کئی اعتبار سے بہتر یہ مشینری ہماری ملک میں تیار ہو رہی ہے، ہمارے یہاں گاڑیوں کے ٹائر تیار کرنے کے متعدد کارخانے ہیں، لیکن پاکستان میں ہر سال 10سے 12ارب ڈالر کے ٹائر سمگل ہو کر پہنچتے ہیں، غیر ملکی ٹائروں کا معیار ہم سے بہت بہتر ہے، ایسے میں کوئی ہمارے تیار کردہ ٹائر کیوں خریدے گا جو قیمت میں بھی کسی اور کا مقابلہ نہیں کرتے، ہمارے یہاں بجلی اور گیس خطے میں مہنگی ترین ہے، جس کے بعد ہماری بیشتر مصنوعات خریدار کی قوت سے باہر ہو جاتی ہیں۔ رہا معاملہ فارما سیو ٹیکل کا تو ہم ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال خود تیار نہیں کرتے، یہ بھارت اور چین سے درآمد ہوتا ہے، مہنگی بجلی کے بعد اس کی قیمت آسمان پر جا پہنچتی ہے۔ پاکستان میں ادویات کی مینوفیکچرنگ اور ترسیل سے جڑا مافیا سال میں نہایت آرام سے دو مرتبہ اس کی قیمتوں میں اضافہ کرانے میں کامیاب رہتا ہے، ملک کے اندر 5روپے میں تیار ہونے والا 10گولیوں کا پتا بازار میں 100روپے میں ملتا ہے ۔کوئی ملک ہم سے دوائیاں خریدنے کی بجائے بھارت یا چین سے کیوں نہ خریدے گا، جو سستی ہونگی، ان کی کوالٹی بہتر ہو گی۔ بتایا گیا ہے بیلا روس ای کامرس کے شعبے میں پاکستان کے تعاون کا خواستگار ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، خدا کرے بیلا روس کے صدر ، ان کے معزز ارکان وفد اور ان کے تاجروں کو اس بات کی بھنگ نہ پڑے کہ ہمارے ٹیکس اکٹھا کرنے والے ایک قومی ادارے میں ای کامرس کے ماہرین نے 235ارب روپے کا فراڈ کرتے ہوئے اس کثیر رقم پر ہاتھ صاف کیا ہے، 3ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا۔ ادارے کے ایڈوائز جناب جوندہ صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اس فراڈ میں ادارے کے اپنے لوگ شامل تھے، جن میں بعض سینئر افسر بھی شامل نظر آتے ہیں، کیونکہ ان کی معاونت کے بغیر اتنا بڑا فراڈ نہیں ہو سکتا، فراڈ کرنے والے، لوٹنے والے اب پاکستان میں نہیں بیٹھے ہوئے، ایسے فراڈیوں کے پاس غیر ملکی شہریت ہوتی ہے، وہ فراڈ کے بعد پہلی فلائٹ سے ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ بعض فراڈیوں کے پاس تو اپنے جہاز ہیں، انہیں فلائٹ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، وہ کسی نظام کے تابع نہیں، نظام ان کے تابع ہوتا ہے، آج بھی حکومت دوہری شہریت پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، وجہ صاف ظاہر ہے۔ دیکھنا باقی ہے بیلا روس کو ہم کیا اور کتنے ارب ڈالر میں بیچتے ہیں۔