جیل اصلاحاتی کمیٹی سے توقعات ( تیسرا حصہ)
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پنجاب حکومت نے قیدیوں کی سہولت کے لئے پی سی او نصب کر دیئے ہیں جہاں سے وہ مرحلہ وار اپنے اہل و عیال سے بات کر سکتے ہیں۔ پہلے سزائے موت کے وہ قیدی جن کی اپیلیں ہائی کورٹ میں ہوتی تھیں انہیں پی سی او پر لایا جاتا تھا لیکن اب سزائے موت کے تمام قیدیوں خواہ ان کی پیلیں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ہوں انہیں سزائے موت کے سرکل میں یہ سہولت مہیا کر دی گئی ہے۔ اگرچہ پی سی کی تنصیب سے غیرقانونی موبائل فونز کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اس کے باوجود موبائل فونز کا استعمال ہوتا ہے۔ قیدیوں کے پاس جدید قسم کی ڈیوائس کی موجودگی سے جیمرز موبائل کے استعمال پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔غیر قانونی موبائل کا استعمال مبینہ طور پر رشوت وصول کرنے کا دھندا ہے۔ جب جیمرز نہیں ہوا کرتے تھے جیلوں میں قیدی اپنے موبائل سیل سے پی سی او چلایا کرتے تھے جو آمدن کا بہت بڑا ذریعہ تھا۔ قیدیوں سے برآمد ہونے والے موبائل فونز کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا البتہ ڈی آئی جی طارق بابر جب سپرنٹنڈنٹ تھے قیدیوں سے برآمد ہونے والے موبائل ملاحظہ کے موقع پر توڑ دیتے تھے۔ جیلوں سے غیر قانونی اشیاء کی برآمدگی تبھی ممکن ہے اگر رات کی تاریکی میں اچانک چھاپے مارے جائیں۔ یہاں تو طریقہ کار ہی غلط ہے آئی جی جیل خانہ جات ابھی ہیڈ کوارٹر میں ہوتا ہے جیلوں میں پہلے خبر ہو جاتی ہے اس نے فلاں دن آنا ہے۔ اندرون جیلوں میں سرچ کا کوئی قابل عمل نظام موجود نہیں ہے۔ جیل مینوئل میں شام کو قیدیوں کو بیرکس اور سیلوں میں بند کرنے سے قبل ان کی سرچ ہونی چاہیے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ جیل ملازمین کی سرچ کا نظام بہتر ہو جائے تو جیلوں میں غیر قانونی اشیاء کی آمد رک سکتی ہے۔ مین گیٹ پر تلاشی لینے والے ملازمین اپنے ساتھیوں کی جامہ تلاشی لینے پر مامور ہوتے ہیں جب کہ جیل افسران تلاشی سے مبرا ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر تمام جیل ملازمین خواہ کوئی افسر ہو یا نچلے درجے کا ملازم ہو سب کی اچھی طرح جامہ تلاشی ہونی چاہیے۔جیل ملازمین نے غیرقانونی اشیاء کو اندر لے جانے کے لئے کوٹ موکا کا راستہ نکال لیا ہے کوٹ موکا پر تعنیات سنتری غیرقانونی اشیاء جیل کی دیوار کے اندر پھینک دیتا ہے جس کے بعد کوٹ گشت والے ملازمین وہ اشیاء اٹھا کر متعلقہ قیدی کو پہنچا دیتے ہیں۔ جیل ملازمین کے تبادلوں کے لئے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے اگر ہے تو اس پر پوری طرح عمل نہیں ہور ہا ہے۔ کئی کئی سال ایک جیل میں تعینات رہنے والے ملازمین کو چند ماہ کے لئے کسی دوسری جیل میں بدل دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ واپس اسی جیل میں آجاتے ہیں۔ کسی محکمہ میں سنا ہے سنیئر افسر پوسٹنگ کی انتظاری فہرست میں ہوں اور جونیئر کو اپنے پے سکیل میں سپرنٹنڈنٹ جیل لگا دیا گیا ہو۔ اس قسم کے کام تو خصوصی حالات میں ہو سکتے ہیں جیل خانہ جات میں تو جونیئر کو سنیئر پوسٹ پر لگانے کی روایت پر بڑی تیزی سے عمل ہو رہا ہے۔ اگرچہ قانونی طور پر جونیئر کو سنیئر پوسٹ پر لگانے پر کوئی قدغن نہیں ہے مگر اس قسم کے کام تو اسی وقت ہونے چاہیں جب کوئی سنیئر انتظاری فہرست میں نہ ہو۔ گریڈ اٹھارہ کے افسروں کو سب جیلوں میں سپرنٹنڈنٹ لگانا کہاں کا انصاف ہے؟ راست باز افسروں کو کھڈے لائن لگانا سیاسی حکومتوں کی پالیسی ہے۔ جن گریڈوں کے افسروں کے تبادلوں کا اختیار ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کا ہوتا ہے ایسے تبادلے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہوتے ہیں۔ جیل ملازمین میں سے انہی کی ڈیوٹی اندرون جیل لگائی جاتی ہے جو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو سے سب اچھا کرتے ہیں۔ جیلوں میں ملازمین کی ڈیوٹی ہر ماہ بدلنے کا معمول ہے۔ سینٹرل ٹاور ( جسے جیل کی زبان میں چکر) کہتے ہیں۔ چیف وارڈن کے ساتھ دو امدادی وارڈرز ہوتے ہیں۔ بیرکس میں ہیڈ وارڈرز ہونے والی جمع شدہ پونجی انہی کے پاس جمع کراتا ہے جو بعد ازاں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایگزیکٹو کے پاس چلی جاتی ہے، جس کے بعد اس کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے۔ اندرون جیل ملازمین کو بدل بدل کر لگانا چاہیے، اس کے بغیر ڈیوٹی لگانے کے نظام میں شفافیت ممکن نہیں۔ تعجب ہے جیل ملازمین کی ڈیوٹی فہرست بنانے والا ہیڈ وارڈر جسے جیل والے ڈیوٹی بک کہتے ہیں باقاعدہ نذرانہ لینے کے بعد ڈیوٹی لگانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ عجیب تماشا دیکھا ہم نے جیل ملازمین میں ایک چیف ہیڈ وارڈر کا عہدہ ہوتا ہے جسے چیف کہا جاتا ہے، سینٹرل جیلوں میں کئی کئی چیف کی موجودگی کے باوجود ہیڈ وارڈر کو چکر میں لگایا جاتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے جیل کے سینٹرل ٹاور، ملاقاتی شیڈ اور قیدیوں کی تلاشی پر جن اہلکاروں کو لگایا جاتا ہے وہ پہلے متعلقہ حکام سے بارگین کرنے کے بعد ڈیوٹی پر متعین کئے جاتے ہیں۔ قارئین کو حیرت ہوگی اب تو کافی جیلوں میں یوٹیلیٹی سٹورز کی سہولت ہو گئی ہے تاہم اس کے باوجود پرائیویٹ کنٹریکٹر سے اندرون جیل سامان بھیجنے کا سالانہ ٹھیکہ ہوتا ہے ۔کینٹین کنٹریکٹر کئی افسروں کے گھروں میں ماہانہ راشن فری بھیجنے کا پابند ہوتا ہے۔ بعض جیلوں میں کینٹین کنٹریکٹر اور یوٹیلیٹی سٹورز کی سہولت کے باوجود قیدیوں نے سینٹرل ٹاور کے ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے بیرکس میں کینٹین کھول رکھی ہوتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے قیدی سرکاری کینٹین سے سامان خرید کر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ ملک کے دیگر صوبوں کی جیلوں کے مقابلے میں پنجاب کی جیلوں میں مبینہ طور پر کرپشن زیادہ ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں عام ملاقاتی شیڈوں میں زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹہ قیدیوں سے ملاقات کے لئے وقت فراہم کیا جاتا ہے اگر کوئی ملاقاتی قیدی سے کچھ وقت زائد ملاقات کرنے کا خواہشمند ہو تو اسے بھتہ دینا پڑے گا ورنہ وہ ملاقات نہیں کر سکے گا۔ ملاقاتی شیڈوں کا باقاعدہ ماہانہ ٹھیکہ ہوتا ہے، اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ انچارج کو پیسوں کو ہفتہ وار حساب دینا ہوتا ہے۔ کوئی افسر یا جیل کا کوئی اہل کار پہلے سے بھتہ طے نہیں کرے گا، اسے ایسی جگہوں پر تعینات نہیں کیا جائے گا جہاں سے رشوت لے سکے ۔ یوں تو ہر جیل میں مال پانی کا سلسلہ چلتا ہے، البتہ بعض جیلیں ایسی ہیں جن میں سینٹرل جیل راولپنڈی، کوٹ لکھپت، فیصل آباد اور ڈسٹرکٹ جیلوں میں کیمپ جیل لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ اور گجرات زیادہ سے زیادہ مال پانی کے اعتبار سے مشہور ہیں۔ ( جاری)