عمرہ زائرین سے بھیک نہ مانگنے کا حلف

تحریر: رفیع صحرائی
عمرہ اور حج کے بہانے سعودی عرب جا کر بھیک مانگنے والے پاکستانیوں سے متعلق سعودی شکایات سے تنگ آ کر حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں گداگری کے انسداد کے لیے عمرہ زائرین پر نئے ضوابط لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عرب خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکومت نے عمرہ ویزے پر سعودی عرب جانے والے زائرین سے گداگری نہ کرنے کا تحریری اقرار نامہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اس تحریری اقرار نامے میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ سعودی عرب میں گداگری پر سزا ہو سکتی ہے۔ نیز پاکستان واپسی پر ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔ اس کے علاوہ عمرہ ویزے کو استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب میں گداگری کرنے والوں کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔
دیکھا جائے تو یہ حلف نامہ ایک بہت بڑا طمانچہ ہے جو ہمارے مجموعی قومی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ بھیک مانگنا اب ضرورت نہیں پیشہ بن چکا ہے۔ بلکہ یہ سب پیشوں سے منفعت بخش کاروبار ہے جس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکڑی اور رنگوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ اگر بیرونی ممالک میں جا کر پاکستانی بھکاریوں کو بھیک مانگنے سے روکنا ہے تو اس سے پہلے ملک کے اندر بھیک مانگنے پر مکمل پابندی عائد کرنا ہو گی۔
بھیک مانگنا ہماری قوم شناخت بن چکی ہے۔ ہمارے ملک کے تمام عوام و خواص ہی کسی نہ کسی شکل میں بھکاری بن چکے ہیں۔ بھیک صرف یہی نہیں ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کچھ حاصل کر لیا جائے بلکہ اپنے حصے یا حق سے زیادہ کا حصول بھی بھیک ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ رشوت خور سرکاری ملازم یا افسر بھی حقیقت میں بھکاری ہی ہے جو سائل سے جائز یا ناجائز کام کے عوض نذرانہ وصول کرتا ہے۔ بغیر محنت یا کسی کام کے حاصل کی گئی رقم یا جنس بھیک ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جو ہمارے مقتدر حلقے انتہائی سستے داموں توشہ خانہ سے مہنگی چیزیں خریدتے ہیں اگر اس عہدے پر نہ ہوتے تو کیا ان چیزوں کو خریدنے کے مستحق ہو سکتے تھے؟۔ کیا عام آدمی توشہ خانہ سے اس طرح کم قیمت دے کر مہنگی چیزیں خرید سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ شاہی بھیک ہے جو صرف شاہوں اور اس کے حواریوں کا استحقاق ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت بھی بھیک مانگنے کو ’’ منفعت بخش کاروبار‘‘ سمجھتی ہے۔ ملک میں سیلاب، زلزلہ یا کسی دوسری قدرتی آفت کی صورت میں ہماری حکومت ہمیشہ خالی ہاتھ ہوا کرتی ہے۔ پوری دنیا سے آفت زدگان کی بحالی کے لیے ڈونیشن کے نام پر بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ جو آفت زدگان تک تو نہیں پہنچ پاتی البتہ اس بھیک سے جو کچھ امداد کے لیے جاری کیا جاتا ہے وہ حکومتی زعماء اور سرکاری اہل کاروں کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے۔ 2022ء کے سیلاب زدگان ابھی تک بحال نہیں ہو سکے۔ حکومت نے اربوں روپے کی امداد اکٹھی کی۔ ایک سیاسی پارٹی نے اربوں روپے ٹیلی تھون کے ذریعے سیاب زدگان کی بحالی کے لیے جمع کئے اور وہ رقم اپنے سیاسی جلسوں پر خرچ کر ڈالی۔ سیلاب زدگان تا حال امداد کے منتظر ہیں۔
دراصل آفت زدہ لوگ حکومتوں کے وہ اپاہج، مفلوج اور معذور بچے ہوتے ہیں جنہیں انتہائی گندے، میلے کچیلے کپڑوں میں ریڑھیوں پر ڈال کر یا چوکوں چوراہوں میں بٹھا کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ بھیک اکٹھی کی جاتی ہے۔ ان لوگوں کی بحالی کا مطلب ’’ کاروباری نقصان‘‘ سے دوچار ہونا ہے۔
بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر ان کی مدد کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42ارب ڈالر یہ بھکاری نکال کر لے جاتے ہیں۔ منافع بخش کام سے مراد ایسا پیداواری کام ہے جس سے ملک کو فائدہ ہو۔ اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ملکی ترقی کے لیے 3کروڑ 80لاکھ افراد کی عظیم الشان افرادی قوت ملکی ترقی میں حصہ لینے کی بجائے کام کرنے والوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے جبکہ ان افراد سے معمولی کام لینے کی صورت میں بھی آمدنی38ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل اپنے پاں پر نہ صرف کھڑا کر سکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے لئے باعزت روزگار بھی مہیا کر سکتی ہے۔
گلی گلی موجود لنگر خانے، ایدھی، سیلانی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے مفت کھانے کی فراہمی اور حکومت کی طرف سے بینظیر انکم سپورٹ کی امداد صرف ہڈ حرام پیدا کر رہی ہے اور ملک کی تباہی میں ان سب کا بھی بھرپور حصہ ہے۔
آپ اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی روٹی ان بھکاریوں کو دے کر مطمئن ہیں تو بے شک اگلے سو سال مزید ذلت میں گزارتے رہیں اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کو پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو خدا حافظ کہہ دیجئے۔ مفت کھلانے کے تمام عوامل کا بائیکاٹ کر دیجئے۔ بے شک اس کے خلاف بڑی تعداد میں فتویٰ ملیں گے لیکن پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر ان شاء اللہ نادم نہیں ہوں گے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی محسوس کریں گے۔
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا اس کے صرف چار سال بعد اس کے پاس 52ارب ڈالر کے ذخائر تھے۔ اچھی بات اور مستند کام کی تقلید میں کوئی عیب نہیں ہے۔ ویسے بھی آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کسی بھکاری کو آپ پانچ سو روپے بھی دیں گے تو وہ اگلے روز پھر آپ کے پاس بھیک مانگنے آ جائے گا۔ اگر کسی مزدور کو شام کے وقت اس کی طے شدہ اجرت سے پچاس روپے بھی زیادہ دیں گے تو وہ نہ صرف آپ کا شکر گزار ہوگا بلکہ اگلے روز زیادہ دلجمعی اور محنت سے کام کرتا نظر آئے گا۔
اگر ہمیں بطور زندہ قوم دنیا میں اپنا امیج بنانا ہے تو پورے ملک میں بھیک مانگنے پر فی الفور پابندی لگانا ہو گی۔ ہر شہر کی بلدیہ کو چاہیے کہ جہاں بھکاری نظر آئے اسے پکڑ کر اس کے ہاتھ میں جھاڑو دے کر صفائی پر لگا دے۔ شام کو روٹی کھلا کر اسے چلتا کرے۔ بھیک دینے کے خلاف باقاعدہ قومی مہم چلا کر پیشہ ور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ورنہ یہ بھکاری سعودی عرب، ایران اور عراق کے بعد دنیا بھر میں اپنی کاروباری برانچز قائم کر کے پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے۔





