سیاسی استحکام ممکن ہے

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
کسی کام کے سرانجام دینے میں انسان کی نیت کا عمل دخل ہوتا ہے حکومت اور ذمہ دار حلقے صدق دل سے چاہیں تو کوئی وجہ نہیں ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار نہ ہوسکے ۔ کسی سیاسی جماعت کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا جائے تو شور و غوغا اس کا جمہوری حق ہوتا ہے۔ ملکی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں الیکشن میں مبینہ طور پر دھاندلی کے ریکارڈ توڑے گئے جس کا یہ کالم نگار عینی شاہد ہے 2024ء کا الیکشن اس پر سبقت لے گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین جماعت ہے انتخابات میں عوام نے جس جوش و جذبے سے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے الیکشن کے نتائج نے عوام کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ سیاسی جماعتوں کو پرامن طریقہ سے جلسے اور جلوس کرنے دیئے جائیں تو سیاسی عدم استحکام کا سوال پیدا نہیں ہوتا یہاں تو باوا آدم نرالا ہے۔ پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے کے باوجود عوام کو جلسہ گاہ جانے سے روکنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں ہیں۔ سوال ہے کیا ایسے ہتھکنڈوں سے عوام کو کسی جماعت کی حمایت سے روکا جا سکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو عوام کا مقبول لیڈر تھا اس کی گرفتاری پر عوام نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہاں تک بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اس کے باوجود عوام سڑکوں پر نہیں نکلے۔ اس کے برعکس عمران خان جیل میں ہوتے ہوئے عوام کو کال دیتا ہے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ اندرون اور بیرون ملک پاکستانی عمران خان کی کال پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کے پی کے تمام صوبوں پر کے پی کے سبقت لے گیا ہے۔ کے پی کے عوام بانی پی ٹی آئی کے نام پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ وزیراعلیٰ گنڈا پور میں عوام کو سڑکوں پر لانے کا ملکہ حاصل ہے جبکہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ضرور ہے تاہم قیادت کا بڑا فقدان ہے۔ عوام کو جب تک قیادت نصیب نہیں ہوتی عوام سڑکوں پر نہیں لائے جا سکتے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج میں اسلام آباد پولیس کے کانسٹیبل کی ہلاکت پر دلی رنج ہے۔ یہ وطن پولیس اور اس کے تمام ادارے اپنے ہیں کوئی غیر نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے اداروں سے محبت کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ عوام کے مینڈیٹ کو چرانے کا مرتکب ہوتا ہے تو عوام کے رنج و غم میں اضافہ ہونا قدرتی امر ہے۔ انتخابات میں الیکشن کمیشن نے جو کردار ادا کیا اس نے سیاسی تاریخ کے تمام سابقہ ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حقیقت میں الیکشن میں مبینہ طور پر جو بے قاعدگیاں ہوئی ہیں اس کی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر پر عائد ہوتی ہے فارم 47 میں ردوبدل کی صورت میں ذمہ دار الیکشن کمیشن ہے۔ حکومت نے عمران خان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہے تاہم اس کے باوجود حکومت عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم نہیں کر سکی جو بانی پی ٹی آئی کی راست بازی کا بین ثبوت ہے۔ اب جو حکومت پی ٹی آئی کو احتجاج کرنے کے لئے دو جگہوں کی آفر دے رہی ہے اگر پہلے یہ کام کر لیا جاتا تو کسی کی موت واقع نہ ہوتی۔ کسی لیڈر کی مقبولیت کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہو۔ حکومت نے عمران خان کو جیل بھیج کر اس کی مقبولیت کا اندازہ لگا لیا۔ نواز شریف کو اپنی مقبولیت کا بڑا گھمنڈ تھا نواز شریف کو گرفتار کیا گیا عوام سڑکوں پر نہیں آئے۔ نواز شریف نے وطن سے باہر رہ کر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی نہیں ہو سکی۔ وطن واپسی پر نواز شریف نے ملک گیر دورے کرنے کا کئی بار اعلان کیا اس کے باوجود وہ کسی صوبے کا دورہ نہیں کر سکا جو اس کی عوام میں غیر مقبولیت کا بڑا ثبوت ہے۔ حکومت اور اس کے ادارے اناء اور ضد کے خول سے باہر نکلیں تو ملک سے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ممکن ہے۔ بانی پی ٹی آئی سمیت سانحہ نو مئی کے ملزمان کو ضمانت پر رہائی دے کر ان کے خلاف مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ہم یہ بات پہلے بھی کالموں میں لکھ چکے ہیں الیکشن کا مینڈیٹ واپس ہونا ناممکن ہے نہ ہمارا ملک بار بار انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے لہذا عمران خان کو اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایوان میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عمران خان اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد ایوان میں رہنے کا راستہ اختیار کرتا تو جیل سے باہر ہوتا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے ان کا یہ احتجاج فیصلہ کن ہے اور عمران خان کی رہائی تک ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ذمہ داروں کو بھی چاہیے اپنے رویے میں نرمی لانے کی کوشش کریں تاکہ ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔ پی ٹی آئی والوں کو بھی آئندہ ہونے والے انتخابات کا انتظار کرنا چاہیے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے مینڈیٹ واپسی کے مطالبے سے دستبردار ہوجانا چاہیے اور آئندہ ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی روکنے کے لئے جدوجہد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سیاست دان اس بات پر اتفاق رائے کر لیں انتخابات میں کسی قسم کی دھاندلی نہیں ہونے دیں گئے تو کوئی وجہ نہیں الیکشن میں کوئی کسی کا مینڈیٹ چوری کر سکے۔ ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی تو الیکشن ہوتے ہیں بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا شور و غوغا ہمیشہ رہتا ہے ۔ جب تک سیاسی جماعتیں شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے سوچ بچار نہیں کریں گی ہمارے ہاں انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی ختم ہونے کا امکان نہیں۔ ہماری بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے رہنمائوں سے درخواست ہے ملک میں استحکام لانے کی خاطر احتجاج ختم کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکے۔ حکومت کو بھی چاہیے پی ٹی آئی کے گرفتار مرد و خواتین کو ضمانتوں پر رہائی دے کر ان کے خلاف مقدمات عام عدالتوں میں چلائے جائیں۔





