Column

صدیقہ کائنات

شہر خواب ۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں جب بی بی خدیجہؓ نے رسولؐ خدا سے عقد کیا، مکہ کی عورتوں نے آپؓ سے قطع تعلق کر لیا اور آپؓ کے گھر آنا جانا بند کر دیا۔ آپ اس وجہ سے غمگین رہتی تھیں، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہؓ آپؓ کے بطن اطہر میں تشریف لائیں، آپؓ تنہائی کے غم سے نجات پا گئیں اور اپنے شکم میں موجود بچے سے مانوس ہو گئیں اور اس سے باتیں کرتی رہتیں ۔
روایات میں ملتا ہے کہ ایک بار رسالت مآبؐ نے آپؓ کو تنہائی میں باتیں کرتے پایا تو پوچھا کہ وہ کس سے محو گفتگو ہیں تو آپؓ نے فرمایا کہ میرے بطن میں جو بچہ ہے وہ مجھ سے گفتگو کرتا ہے۔
حضرت فاطمہ زہراؓ کی ولادت کے وقت رسولؐ خدا نے جناب خدیجہ سے فرمایا : جبرائیلٌ نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہمارا یہ پیدا ہونے والا فرزند لڑکی ہے، اور تمام آئمہ معصومین اسی کی نسل سے ہوں گے ۔
جناب فاطمہؓ نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلامؐ کے علم و دانش سے بہرور ہوئیں، رسول اکرمؐ سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ہو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یہی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلامؐ آپؓ کو بے حد چاہتے تھے ایک روز حضرت عائشہؓ نے آپؐ سے سوال کیا ،’’ کیا آپؐ فاطمہ زہراؓ کو اتنا چاہتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپؐ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟، آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’ اے عائشہؓ اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ میں فاطمہؓ کو کیوں دوست رکھتا ہوں تو تم بھی انہیں محبوب رکھو‘‘۔
آپؐ فاطمہؓ کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ ’’ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا ‘‘َ
ایک بار پیغمبر اسلامؐ ارشاد فرماتے ہیں’’ فاطمہؓ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضی پر غضب ناک ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلامؐ کی زوجہ ام سلمیٰؓ فرماتی ہیں’’ فاطمہ زہرا ؓ سب سے زیادہ رسولؐ سے مشابہ تھیں‘‘َ
جناب سیّدہ ؓ کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسولؐ کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہولہان دیکھتیں تو کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالمؓ نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں ، بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں ۔ ماں کی رحلت کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں۔ فاطمہؓ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں۔ شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسولؐ کی توہین کرنے اور اذیت پہنچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے۔ جب بھی آپؓ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپؓ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسولؐ کا حوصلہ بڑھاتی تھیں، جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر، اور اپنوں میں بیگانہ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان، ہر وقت جہل و بت پرستی سے بر سر پیکار، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہؓ ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یہی تو وجہ کہ پیغمبرؐ فرماتے تھے ’’ تمہارا باپ تم پر قربان ہو ‘‘ یا یہ کہ ’’ اپنے باپ کی ماں ‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپؓ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔
آپؓ کی عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ باپ انبیائٌ کا سردار ہے تو شوہر اولیاء کا سردار، ماں دنیا کی بہترین عورتوں میں سے ایک، اور آپؓ کے بیٹے جواناں جنت کے سردار۔ اور خود آپؓ کی شان یہ ہے کہ آپؓ جنت کی عورتوں کی سردار ۔
اقبالؒ نے حیات سیدہ پر نگاہ ڈالی تو بے ساختہ پکار اٹھے
مریم از یک نسبتِ عیسٰی عزیز
از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
نورِ چشم رحمۃ للعالمین
آن امام اولین و آخرین
آنکہ جان درپیکر گیتی دمید
روزگارِ تازہ آئین فرید
بانوئے آن تاجدارِ ہل أتیٰ
مرتضٰی مشکل کشاء شیرِ خدا
پادشاہ و کلبہ ایوان او
یک حسام و یک زرہ سامان او
مادرِ آن مرکزِ پرکارِ عشق
مادرِ آن کاروانِ سالارِ عشق
آن یکی شمع شبستان حرم
حافظ جمعیت خیر الامم
تا نشیند آتشِ پیکارو کین
پشتِ پا زد برسرِ تاجِ و نگین
حضرت مریم ٌ کی ایک عظمت ہے کہ وہ حضرت عیسیٌٰ جیسے اولعزم نبیٌ کی والدہ ماجدہ ہیں، یعنی ان کا تعلق عصمت کے مقام پر فائز ایک ہستی سے ہے مگر حضرت فاطمہٌ کی شان دیکھیے کہ ان کو یہ شرف تین طرح سے حاصل ہیں ۔ وہ رحمت للعالمین کی نور چشم ہیں جو اگلوں پچھلوں تمام کے امام ہیں وہ رسولؐ اللہ جنہوں نے مردہ عالم کے اندر آکر ایک روح پھونک دی، اس جہان کے اندر ایک نیا اور تازہ آئین اور دین لے کر آئے اور اس کے ذریعے بشریت کو زندہ کیا۔۔ یہ نبی مکرم کی ہی شان ہے ۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ حضرت زہراؓ اس کی زوجہ ہیں، جن کے سر پر تاجِ ہل أتیٰ رکھا ہوا ہے، یعنی جس کے سر پر سورہ دہر کا تاج رکھا ہوا ہے۔ آپؓ حضرت علی مرتضیٰؓ، مشکل کشا اور شیر خدا کی زوجہ محترمہ ہیں ۔
اس تاجدار کا قصرِ بادشاہی ایک جھونپڑا ہے اور ان کا تمام کا تمام سامان ایک زرہ اور ایک تلوار ہے ۔ جناب حضرت زہراؓ کسی تیسری نسبت یہ ہے کہ پرکارِ عشق کے مرکز کی ماں ہیں ، عشق کا مرکز امام حسینؓ ہیں اور امام حسینؓ کی ماں حضرت زہراؓ ہیں۔ دوسرا بیٹا شمعِ شبستانِ حرم ہے۔ وہ جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کا شیرازہ ایک نازک دور میں بکھرنے سے بچایا۔ امام حسن مجتبٰیؓ نے تاج و نگین اور اقتدار کو ٹھکرا دیا، تاکہ یہ خیر الامم اور یہ اسلامی جمعیت و اُمت مسلمہ باقی رہے ۔
سن بلوغت کو پہنچیں تو کئی لوگوں نے خواستگاری کی درخواست کی مگر آنجنابؐ خاموش رہے۔ شاید آپؐ کو کسی اور شخصیت کا انتظار تھا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ : مولا علیؓ دو تین مرتبہ رسول اکرمؐ کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرمؐ نے پوچھ ہی لیا :’’ اے علیؓ کیا کوئی کام ہے ؟، حضرت امیرؓ نے جواب دیا : جی، رسول اکرمؐ نے فرمایا : شاید زہراؓ سے شادی کی نسبت لے کر آئے ہو ؟، حضرت علیؓ نے جواب دیا، جی۔ چونکہ مشیت الٰہی بھی یہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ہو لہذا حضرت علیؓ کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرمؐ کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبرؐ اس نسبت کا تذکرہ زھراؓ سے بھی کرتے لہذا آپؐ نے اپنی صاحبزادی سے فرمایا : آپؓ ، علیؓ کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ہیں۔ علیؓ کے سابق خدمت گزاروں اور با فضیلت افراد میں سے ہیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمہارے لئے بہترین شوہر کا انتخاب کرے ۔ اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علیؓ سے کر دوں آپ کی کیا رائے ہے ؟، حضرت زہراؓ خاموش رہیں، پیغمبر اسلامؐ نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ پھر حضرت امیرؓ کو شادی کی بشارت دی اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت علیؓ کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: تلوار کو جہاد کے لیے رکھو ، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لیے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔
رسول اکرمؐ نے جناب سلمان فارسی سے فرمایا: اس زرہ کو بیچ دو۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درہم میں بیچا۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئی اور اس شادی کا ولیمہ ہوا۔ جہیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرمؐ کے گھر لایا گیا تھا، اس میں 14چیزیں تھی ۔
رسول اکرمؐ اپنے چند با وفا مہاجر اور انصار اصحابؓ کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ہو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں۔ پیغمبر اسلامؐ اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علیؓ کے ہاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انہیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔ رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؓ کا ہاتھ امام علیؓ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے دعا فرمایا: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔ شادی کے اگلے دن آپؐ خانہ سیدہ میں تشریف لے گئے تو آپؐ نئی نویلی دلہن کو عام سے گھریلو لباس میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ بیٹی نے بتایا کہ شادی کی رات کسی غریب عورت نے لباس کا سوال کیا تو عروسی لباس اسے دے دیا تھا۔ چشم فلک نے سخاوت کا یہ عظیم الشان منظر بڑی حیرت سے دیکھا اور تاریخ عالم نے ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔
حضرت فاطمہ زہراؓ اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہؓ کی صفات کا واضح نمونہ تھیں، جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علیؓ کے لئے ایک دل سوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں۔ آپؓ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبرؐ کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔
جناب علیؓ فرماتے ہیں کہ فاطمہ زہراؓ نبی اکرمؐ کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپؐ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپؐ نہ ملے تو ام المومنین عائشہؓ کو بتا کر چلی آئیں، جب رسولؐ اللہ تشریف لائے تو عائشہؓ نے آپؐ کو بتایا، ( کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپؐ ہمارے پاس تشریف لائے ، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپؐ نے فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر رہو( اٹھنا ضروری نہیں) چناں چہ آپؐ آ کر ہمارے بیچ میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپؐ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی، آپؐ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر چیز نہ بتائوں جو تم نے مانگی ہے، جب تم سونے چلو تو (33بار ) سبحان اللہ کہو، ( 33بار ) الحمدللہ کہو، اور (34بار) اللہ اکبر کہو، یہ تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے‘‘۔
یہ تسبیح فاطمہ ہے جس کے بے پناہ معنوی فوائد ہیں۔ ایک باپ کا اپنی بیٹی کو دیا گیا عظم ترین تحفہ ہے۔ اس ورد سے تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ جناب سیدہؓ سے آپؐ کی محبت مثالی تھی۔ آنجنابؐ کہیں سفر پر جاتے تو سب سی آخر میں بی بی فاطمہؓ کے پاس آتے اور واپسی پر سب سے پہلے اپنی بیٹی سے ملنے جاتے۔ آیہ تطہیر نازل ہوئی تو آپؐ نو ماہ تک صبح فجر کی نماز سے پہلے در سیدہ پر جاتے اور فرماتے ’’ اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپؓ سے دور رکھے اور آپؓ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے‘‘۔
جناب سیدہ کے گھر میں تین پھول کھلے۔ امام حسنؓ، امام حسینؓ اور بی بی زینبؓ ۔ چشم تصور سے دیکھئے کہ جناب رسولؐ اللہ کبھی امام حسنؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھائے ہوئے ہیں، کبھی امام حسینؓ کو کبھی بی بی زینبؓ کو۔
یہ کائنات کا عظیم ترین گھرانہ ہے، جس میں کائنات کے عظیم ترین انسان اور نفوس قدسیہ زندگی گزار رہے ہیں۔
آخر ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ بی بی پاکؓ کو اپنے عظیم والد کی رحلت کا سانحہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آپؓ اس درد کو برداشت نہیں کر پاتیں۔ رہ رہ کر بابا کو یاد کرتی ہیں روتی ہیں’’ اے بابا جان! جب بھی میری خواہش اور شوق بڑھ جائے تو میں روتی ہوئی آپؐ کے قبر اطہر پر جائوں گی۔ اور وہاں جا کر میں نوحہ کناں، تسبیح پڑھتی رہوں گی لیکن میں آپؐ کو جواب دیتے ہوئے نہیں پائوں گی۔ اے صحرا ء نشین، صحراء میں رہنے والے، آپؐ نے ہی تو مجھے رونا سکھایا تھا۔ میں جب بھی آپؐ کو یاد کرتی ہوں میری اس یاد سے میری تمام مصائب و آلام اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔ اگرچہ آپؐ میری آنکھوں سے غائب ہو کر اس زمین کے دل میں چھپے ہو، اے والد گرامی ! لیکن آپؐ میرے قلب حزین سے غائب نہیں ہیں۔ بابا جان! آپؐ کی جداءی کے بعد مجھ پر ایسے مصائب ڈھائے گئے کہ اگر یہ مصائب روشن دن پر پڑتے تو تاریک رات میں بدل جاتا۔
اپنے بابا کی رحلت کے پچانوے ( یا چھ ماہ ) دن بعد آپ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
صاحب المیزان سے سوال کیا گیا کہ کوثر سے کیا مراد ہے تو فرمایا جناب سیدہ ۔ اور اس کی دلیل سورہ کوثر کی آخری آیت ہے
’’ بے شک تیرا دشمن ہی بے نام و نشان ہو گا ‘‘
کوثر کا لفظ قرآن میں صرف ایک بار آیا ہے۔ آپ ہی کوثر ہیں۔ اور آپ ہی کی نسل قیامت تک موجود رہے گی
کوثر سے مراد ہے خیر کثیر۔
اور کوثر کا متضاد ہے تکاثر۔
یعنی بری چیز کی کثرت
میرا سلام پہنچے صدیقہ کائنات تک

جواب دیں

Back to top button