جہالت ایک نعمت ہے

علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ڈارون کا کہنا ہے۔۔ کہ جہالت انسان میں بلاوجہ کا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ کم جانتے ہیں وہ اکثر یقین رکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں، جبکہ گہرے علم والے لوگ چیزوں کی پیچیدگی کو سمجھتے ہیں اور محتاط رہتے ہیں۔
رسل اس خیال کو مزید واضح کرتے ہیں کہ کم عقل لوگ اکثر بلاوجہ پراعتماد ہوتے ہیں، جبکہ علم رکھنے والے اپنی محدودات کو پہچانتے ہیں اور اکثر شکوک کا شکار رہتے ہیں۔
ارسطو عقل مند سوچ کا معیار طے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاہل یقین کے ساتھ بات کرتا ہے، جبکہ عقلمند شک کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ حقیقت تک پہنچ سکے۔
سقراط کے فلسفے کی بات کریں، تو اس نے کہا تھا۔ کہ ’’ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔
مطلب کائنات کی وسعت اور ہر شئے کی ساخت اس قدر وسیع ہے کہ اس قدر وسیع پیمانے پر علم کون جان سکتا ہے ؟ ویسے بھی علم کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنی کم علمی کا ادراک کر لے۔
فریڈرک ڈگلس کہتے ہیں کہ۔۔’’ مطمئن غلام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہنی اور اخلاقی بصارت کو جہالت کے اندھیروں میں غرق کر دیا جائے ، اس طرح وہ کبھی بھی غلامی کے نظام میں کوئی خرابی تلاش کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ بلکہ انھیں یہ یقین ہوجائے گا کہ غلام بنے رہنا ہی ان کے لیے عین فائدہ مند صورت حال ہے، بالآخر وہ انسان کہلانے کے لائق ہی نہیں رہیں گے‘‘۔
ہنرک ابسن کا کہنا ہے کہ یہ جہالت، غربت اور بدصورت حالاتِ زندگی ہیں جو شیطان کے کاموں کے ذمہ دار ہیں۔
ڈاکٹر اظہر وحید کہتے ہیں کہ جہالت کسی حقیقت سے بے خبر ہونے کا نام نہیں، بلکہ کسی شئے کی اصل حقیقت کو کچھ اور سمجھ لینے پر بضد ہونے کا نام ہے۔
عربی کہاوت ہے کہ’’ ایک نسل کی جہالت دُوسری نسل کی روایت اور پھر تیسری نسل کا عقیدہ بن جاتی ہے‘‘۔
یہ اقوال ہمیں اپنی سوچ اور علم کے بارے میں غوروفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور یہ سکھاتے ہیں کہ اصل علم کی طرف پہلا قدم اپنی جہالت کو تسلیم کرنا ہے۔
گوئٹے کہتا ہے کہ ’’ جہالت کو سرگرمِ عمل دیکھنے سے زیادہ خوف ناک کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
جہالت میں مبتلا لوگوں کے لیے گمراہی کی تقریبات سے زیادہ کوئی چیز دلکش نہیں ہوتی۔ یہ وہ مواقع ہیں جہاں جہالت اور ناسمجھی کو جشن کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، اور لوگ اپنی لاعلمی کے دائرے میں خوش ہوتے ہیں، بغیر یہ سمجھے کہ وہ حقیقت سے کتنے دور ہیں۔ ایسی تقریبات میں ظاہری رونق اور شور شرابہ ہوتا ہے، لیکن ان کی بنیاد فکری کھوکھلا پن اور بصیرت کی کمی پر ہوتی ہے۔ حقیقی خوشی اور سکون صرف علم، شعور اور سچائی کو اپنانے میں ہے، نہ کہ ایسی تقریبات میں جو انسان کو مزید گمراہی میں دھکیل دیں۔
کسی نے کہا کہ ’’ بہادر مارے جاتے ہیں، ذہین پاگل ہو جاتے ہیں ، اور دُنیا بے وقوفوں سے بھری رہتی ہے ‘‘۔
بزرگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ جہالت بہت بڑی نعمت ہے ، شعور آپ کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے۔ اور یہ وہ تکلیف ہے۔ جو عوام کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے ، جس تکلیف میں آپ اکیلے ہوتے ہیں۔
جہالت ایک نعمت ہے کیونکہ اگر آپ باشعور ہیں، تو آپ ہر وقت ہر بات پر پریشان رہیں گے کڑھتے رہیں گے شعور آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ آپ کسی کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کر پائیں گے اور کر بھی کچھ نہیں سکیں گے، اس لئے کڑھتے رہیں گے۔ آپ فرسودہ رسم و رواج کو فرسودہ نظام کو غلط سمجھیں گے اور کڑھتے رہیں گے۔ اسی طرح اور ہزاروں باتیں ہیں جن میں آپ کڑھتے رہیں گے، پریشان ہوتے رہیں گے اس لئے جہالت ایک نعمت ہے۔
جہالت بہت بڑی نعمت ہے ، شعور آپ کو تکلیف میں ڈال دیتا ہے۔ اور یہ وہ تکلیف ہے۔ جس تکلیف میں آپ اکیلے ہوتے ہیں۔ جہالت میں مبتلا لوگوں کے لیے گمراہی کی تقریبات سے زیادہ کوئی چیز دلکش نہیں ہوتی۔
کسی نے کہا ’’ بے شک جاہلوں کے دلوں کو لالچ مشتعل کرتی ہے، آرزوئیں انہیں قابو میں رکھتی ہیں اور دھوکہ انہیں پھانس لیتا ہے‘‘۔





