Column

سانحہ کرم! کیا دہشت گرد کامیاب ہوگئے

تھرڈ امپائر
تحریر محمد ناصر شریف
کرم ایجنسی خیبر پختونخوا میں اورکزئی، چمکنی، منگل،حاجی، خوجل خیل وزیر اور طوری قبائل آباد ہیں۔ ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کے حامل انتہائی اہم علاقے کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں ننگرہار، خوست اور پکتیا کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال کی وجہ سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افغانستان کا مشہور پہاڑی علاقہ تورہ بورہ اسپین غر ( کوہ سفید) کے پہاڑی سلسلے کے اندر ایک طرف سے صوبہ ننگرہار اور دوسری طرف سے پاراچنار کے مضافاتی گاؤں زیڑان سے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان کے کسی بھی علاقے بشمول تمام قبائلی علاقوں کے افغان دارالحکومت کابل سے نزدیک ترین اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس علاقے کی شکل ایک مثلث کی سی ہے، چنانچہ بین الاقوامی اسٹرٹیجک اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ Parrots Beakکے نام سے پکارا جاتا ہے۔
پراچین زمانے سے گندھارا تہذیب اور تمدن جب اپنے عروج پر تھا تو یہ علاقہ گھنے جنگلات کا ایک حصہ تھا اور ایک دریا کرم کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا جس کا ذکر ہندوئوں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی آیا ہے۔
550 قبل مسیح چندر گپت موریا خاندان نے جب ٹیکسلا کو اپنا دارالحکومت بنایا اور اپنے تہذیب اور تمدن کو ترقی دی تو ان کی توجہ کا خاص مرکز پاکستان کے یہ علاقے آبادکاری کی جانب متوجہ ہوئے اپنے سحرانگیز آب و ہوا کی وجہ سے اس علاقے کے پہاڑوں میں مختلف قبائل آ کر آباد ہونا شروع ہوئے جس کا سہرا تاریخ کے لازوال ہیرو مہاراجا اشوک کے سر جاتا ہے۔ جس کی آباد کردہ درجنووں چھوٹی بڑی آبادیاں اور دیہات جو آج صرف کھنڈر ات کی شکل میں موجود ہے جن میں قابل ذکر بین الاقوامی ورثاء یونیسکو اور نیشنل ہیرٹیچ سائٹ جن میں قابل ذکر تخت بھائی کے کھنڈرات، سوات کے کھنڈرات، مینادم کے کھنڈرات اور دیگر پتھروں پہ کندھا کی گئی بدھ مذہب کی تصاویر اس بات کی دلیل ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بھی پاکستان کا یہ خوبصورت علاقہ انسانی دسترس کا حصہ تھا۔
کُرم ایک ایسی وادی ہے جس نے بے شمار جنگوں اور بے شمار حکمرانوں کو اپنے کشادہ سینے پر لڑتے دیکھا ہے ایسے غداروں کو بھی اپنے سینے پر جگہ دی ہے جنہوں نے ہمیشہ وادی کرم کے باشندوں کو بے دردی سے شہید اور استعمال کیا ہے
افغان سرحد سے ملحقہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم 2018ء میں صوبے میں ضم ہونے سے قبل فاٹا کہلانے والے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں شامل تھا۔ کرم میں بڑی تعداد میں شیعہ کمیونٹی آباد ہے۔ ماضی میں بھی یہاں فرقہ ورانہ جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
کرم میں حالیہ جھڑپوں کا آغاز جمعرات 21نومبر 2024ء کو پولیس کی حفاظت میں جانے والے شیعہ کمیونٹی کے ایک قافلے پر حملے کے بعد ہوا جس میں 43 افراد ہلاک ہوئے ۔ ضلع کرم میں حالیہ جاری فرقہ ورانہ جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک اور 156 سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ہلاک ہونے والے میں 16 افراد سنی ہیں جب کہ 66 کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے ہے۔ جمعرات کو ہونے والے حملے کے اگلے روز لوئر کرم میں بگن کے علاقے پر مسلح افراد نے حملہ کردیا تھا جس میں مقامی ذرائع کے مطابق 400 سے زائد مکان اور دکانیں نذر آتش کردی گئیں۔ ہفتے یعنی 23 نومبر 2024ء کی شب تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں 300 سے زائد خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کی جانب سے بنایاگیا حکومتی جرگہ بیرسٹر سیف کی سربراہی میں ضلع کرم گیا اور اس جرگے کے نتیجے میں فریقین میں سات دن کے لیے سیز فائر اور ایک دوسرے کے افراد اور لاشیں واپس کرنے پر اتفاق کیاگیا،آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ کرم واقعے میں مقامی گروپ ملوث نہیں ہے بلکہ دہشت گرد تنظیم کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس کے بعد وہ ضلع میں آگ لگانے میں کامیاب ہوئے، دیکھا جائے تو کرم کے خونی واقعات کا اصل سبب افغانستان پر مسلط کردہ جارحیت اور مداخلت کی استعماری جنگ ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کرم میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا کر ہزاروں افراد کا خون بہایا گیا اور ہر بار بے گناہ عوام کی املاک کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا گیا، کرم کے عوام کے حقیقی نمائندوں نے مصالحتی جرگوں اور حکومتی حکام پر بار بار واضح کیا کہ ان کے درمیان مسلک کی بنیاد پر کوئی جھگڑا نہیں ،کرم کے شیعہ سنی عوام نے مری معاہدہ میں ماضی کے تمام تنازعات حل کئے۔
جب بھی کرم میں لڑائی ہوتی ہے تو ہنگو سے پارہ چنار جانے والا واحد راستہ بند کردیا جاتا ہے ۔ لوگ کئی کئی دنوں تک محصور رہتے ہیں ۔ یہاں کے عوام نے ایسے دن دیکھے ہیں کہ انہیں درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرنا پڑا ۔ علاج کے انتظار میں مریض مر جاتے ہیں ۔ دوائیاں نہیں ملتی ۔ دیگر ضروری اشیا کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ اور اب بھی لوگوں کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
ویسے ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کا کردار بھی کسی واقعے کے بعد آگ بجھانے کے بجائے آگ بھڑکانے کا ہوگیا ہے۔ بیرون ملک بیٹھے لوگ ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے جس سے یہ تاثر زائل ہو کہ ان کی سوشل میڈیا کی سرگرمیاں ملک اور اس کے عوام کو نقصان نہ پہنچارہی ہوں۔
ہماری ریاستی اداروں اور حکومت سے گزارش ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سہولت کارو ں کو گرفتار کرلیا جاتا تو شاید کرم ایجنسی میں مسافر وین پر دہشت گردی کا یہ دلخراش واقعہ پیش ہوتا اور نہ اس کے بعد امن و امان کی مخدوش صورتحال کا سامنا ہوتا۔ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات معنی خیز ہیں حکومت کو دہشت گرد کارروائیوں کے تدارک اور عوام کے تحفظ کے لئے عملی اور قابل عمل اقدامات کرنے ہونگے ، اس قسم کے واقعات پر حکومت اور ریاستی ادارے فوری نوٹس لیں اور امن و امان قائم کروائیں۔ ویسے تو نہتے مسافروں پر حملہ انتہائی بزدلانہ اور انسانیت سوز عمل ہے کرم ایجنسی، بنوں ،بلوچستان سمیت دیگر علاقون میں دہشت گردی کے تمام واقعات قابل مذمت ہیں،پارہ چنار کرم ایجنسی میں آئے روز فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات ملک کو کمزور کررہے ہیں کرم ایجنسی میں خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان، خیبرپختونخوا سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور ملک دشمن عناصر کی امن تباہ کرنے کی کوششوں کو ملکر ناکام بناناہوگا۔
دیکھا جائے پاکستان کے طول و عرض میں مختلف مسالک کے لوگ دہائیوں سے اتفاق و اتحاد سے رہتے آ رہے ہیں- ہر مسلک اور عقیدے کے عوام بالخصوص شیعہ اور سنی کراچی، لاہور، ملتان، پنڈی، کوئٹہ ، پشاور الغرض پاکستان کے ہر حصے میں رہتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی تنازعہ اور جھگڑا نہیں ہے۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے وفاق کو پختونخوا حکومت ، سکیورٹی اداروں اور مقامی قبائلی عمائدین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیکر جامع لائحہ بنانا ہوگا تاکہ مستحکم اور دیرپا امن کا ماحول قائم ہوسکے۔

جواب دیں

Back to top button