جیل اصلاحاتی کمیٹی اور پرزنرز ایکٹ

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
ہم چیف جسٹس آف پاکستان کی قائم کردہ جیل اصلاحاتی کمیٹی کے لئے چند تجاویز دے رہے تھے کہ پرزنرز ایکٹ میں ترمیم کی خبر آگئی جس کے بعد ایک طرف جیل اصلاحاتی کمیٹی کام کر رہی ہے تو دوسری طرف پنجاب کے محکمہ داخلہ نے پرزنرز ایکٹ 1900میں ترمیم کی نوید دی ہے۔ اس سے قبل ہم پرزنرز ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر بات کریں پنجاب کے محکمہ داخلہ نے قیدیوں کو اپنی ضلعی جیلوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بظاہر یہ فیصلہ انتہائی اچھا اور قیدیوں اور ان کے لواحقین کو مشکلات سے نجات دلانے میں پیش رفت ثابت ہوگا۔ سوال ہے سنٹرل جیلوں میں سزائوں کے بعد قیدیوں کو اس مقصد کے لئے بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ فیکٹریوں میں مشقت کر سکیں۔ ضلعی جیلوں سے سنٹرل جیلوں میں قیدیوں کے بھیجنے کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک انہیں فیکٹریوں میں مشقت کے لئے بھیجا جا سکتا ہے دوسری طرف ضلعی جیلوں میں فیکٹری نہ ہونے اور گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی وجہ سے شفٹ کیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ جیلوں میں تو پہلے سے گنجائش سے زیادہ قیدیوں ہوتے ہیں۔ پنجاب حکومت کو سب سے پہلے نئی جیلوں کی تعمیر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جب تک نئی جیلیں تعمیر نہیں ہوتیں قیدیوں کو ضلعی جیلوں میں رکھنا ممکن نہیں۔ ایک اردو معاصر میں پرزنرز ایکٹ میں ترامیم کی خبر دیکھ کر خوشی ہوئی کم از کم قیدیوں کی سنی جائے گی۔ پرزنرز ایکٹ 1896میں ترمیم کا تعلق قیدیوں سے نہیں ہے بلکہ جیلوں کے افسران کے عہدوں میں ردوبدل ہے۔ ہم بات کریںگے پرزنرز ایکٹ 1900کی جس میں ترمیم کے بعد قیدیوں کو اپنی سزائوں کے خلاف اپیلوں کا حق حاصل ہوگا۔ عام لوگ اس بات سے واقف نہیں ہوتے قیدیوں کے ہسٹری کارڈ ہوتے ہیں جن پر جیل حکام کی طرف سے دی جانے والی سزائوں کا اندراج ہوتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے قیدیوں کو جیل والوں کی طرف سے دی گئی سزائوں کا علم نہیں ہوتا ہاں البتہ ایسے قیدی جو لڑائی وغیرہ کریں انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے ان کے ہسٹری کارڈ پر پیشی لکھ دی گئی ہو گی۔ محکمہ جیل خانہ جات کی طرف سے قیدیوں پر ہونے والے مظالم کی طویل داستان ہے ۔کسی قیدی سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو اس کے ہسٹری کارڈ پر اس کا اندراج کر دیا جاتا ہے جو اس کی رہائی کے وقت مشکلات کا باعث بن جاتا ہے۔ ہسٹری کارڈ پر سزائوں کے اندراج سے قیدیوں کو دو طرح نقصان ہوتے ہیں۔ ایک جہاں ان کی قید میں کسی قسم کی کمی ہو ختم کر دی جاتی ہے جو ایک قیدی کے لئی اس کی سزا میں اضافے کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک اور جو قیدی کو نقصان ہوتا ہے اس کا چالان نکال دیا جاتا ہے یعنی اسے کسی دوسری جیل میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کسی قیدی کے ہسٹری کارڈ پر درج ہونے والی پیش سے جیل سپرنٹنڈنٹ لاعلم ہوتا ہے۔ جیلوں میں یہ عام رواج ہے کوئی ملازم کسی قیدی سے پرخاش رکھتا ہو تو اسے ہسٹری کارڈ پر اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سے کوئی عذر پیش کرکے جرم کا اندراج کرا دیتا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں یہ عام رواج ہے کسی قیدی سے کوئی جیل ملازم یا افسر ناخوش ہو تو اس کے ہسٹری کارڈ پر اپنے طور پر انتظامی امور کا لفظ تحریر کر دیتا ہے جس کے بعد قیدی کو ضلعی جیل سے دور دراز کسی جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ توجہ طلب پہلو یہ ہے قیدیوں کے ہسٹری کارڈ قیدی منشی کی تحویل میں ہوتے ہے جو عام طور قیدیوں کو ہسٹری کارڈ پر درج کی جانے والے ریمارکس سے قیدیوں کو آگاہ کر دیتا ہے۔ اس ناچیز کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ سے ہم قارئین کو بھی بتائے دیتے ہیں ۔ہمارے ہسٹری کارڈ پر کسی قسم کی کوئی پیشی نہیں تھی جس کاثبوت ہم پیش کر سکتے ہیں ہمارے ہسٹری کارڈ کی فوٹو کاپی ہمارے پاس محفوظ ہے۔جس پر کسی قسم کی سزا کا اندراج نہیں ہے صرف انتظامی امور لکھا ہوا ہے جس سے ہمیں کئی ماہ تک اپنی ضلعی جیل سے پانچ سوکلو میٹر سینٹرل جیل ساہیوال میں رہنا پڑا تھا۔ سینٹرل جیل میں ایک رشوت خور افسر کا یہی کام تھا جو قیدی رشوت نہیں دیتا تھا اس کے ہسٹری کارڈ پر انتظامی امور درج کر دیا جاتا تھا۔ اس ناچیز کے ہسٹری کارڈ پر انتظامی امور لکھنے والا اور مجھے یہ بات بتانے والا دونوں جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں لہذا ہم اس افسر کے بارے میں جو قیدی وارنٹس پر مامور تھا مزید کچھ نہیں کہیں گے۔
نبی آخر الزمانؐ کا فرمان ہے موتا کے محاسن بیان کیا کرو، لہذا اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم اس بارے مزید کچھ نہیں لکھیں گے۔ پرزنرز ایکٹ میں ترمیم سے جیل ملازمین کے لئے کسی قیدی کے ہسٹری کارڈ پر پیشی لکھنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اسے اس بات کا علم ہوگا قیدی جب اپنی سزا کے خلاف اپیل کرے گا تو ڈی آئی جیل اس کی سزا کے خلاف اپیل سنے گا۔ قیدی کی اپیل مسترد ہونے کی صورت میں وہ آئی جی جیل خانہ جات سے سزا کے خلاف اپیل کر سکے گا۔ آئی جی جیل خانہ جات کی طرف سے اس کی اپیل مسترد ہونے کی صورت میں وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ کے روبرو اپیل کرنے کا مجاز ہوگا۔ مجوزہ ترمیم میں قیدی کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران وکیل پیش کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ ہم یہ بات دعویٰ سے کہتے ہیں جن قیدیوں کو ضلعی جیلوں سے سزا کے طور پر منتقل کیا گیا ہو ان کے ہسٹری کارڈ کوئی اٹھا کر دیکھ لے جن میں سے پچاس فیصد قیدیوں کے ہسٹری کارڈ پر انتظامی امور درج ہوگا جس قیدی کو علم نہیں ہوگا۔ سابق آئی جی جیل خانہ جات مبشر ملک اس بات کے بہت خلاف تھے کسی قیدی کے ہسٹری کارڈ پر محض انتظامی امور لکھ کر اسے کسی دوسری جیل میں بھیج دیا جائے تاہم وہ اپنی قلیل مدت میں انتظامی امور لکھنے کے رواج کو ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ پنجاب حکومت اور صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ جن کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی سے ہے ہمیں امید ہے ان کے ہوتے ہوئے قیدیوں کے ساتھ جیل حکام کی طرف سے ہونے والی مبینہ زیادیتوں کا ازالہ ہو سکے گا۔





