Column

پارا چنار ۔۔۔۔ پاکستانی غزہ

تحریر: یاور عباس
غزہ میں اسرائیل بربریت اور مظلوم فلسطینی عوام کی نسل کشی کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں ہے بلکہ دنیا نہ صرف اسرائیل کی درندگی دیکھ رہی ہے بلکہ اس کے حواریوں کے بھیانک چہروں سے بھی نقاب اتر چکے ہیں جو دنیا کو امن کا پیغام دیتے ہیں، انسانیت کی بات کرتے ہیں ، جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور جانوروں کے حقوق تک مانگتے ہیں وہی ممالک غزہ میں اسرائیل کی کھلے عام حمایت کر کے فلسطینی عوام کو نہ صرف جنگ مسلط کیے ہوئے بلکہ عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں کو بھی موت کے گھات اتار رہے ہیں، سکولز ، ہسپتالوں اور مساجد کو بھی نشانہ بنارہے ہیں ،اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلے عام خلاف ورزیاں کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے چکی ہے مگر فلسطینی عوام کو امن فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے ، اسلامی ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ،محض ایران اور اس کے ساتھ شام، لبنان ، یمن کے مجاہدین اسرائیل کی فسطائیت کا عملی جواب دے رہے ہیں ۔ جو لوگ کربلا میں امام حسینؓ کی شہادت کے حوالے سے کوفیوں کو طعنے دیتے نہیں تھکتے کہ کوفہ والوں نے اتنا بڑا سانحہ کیسے ہونے دیا ، اگر وہ امام حسین ؓ کی حمایت میں نکل آتے تو شاید اتنا بڑا سانحہ نہ ہوتا حالانکہ اس وقت صرف کوفہ ہی نہیں بلکہ پورا عالم اسلام خاموش تماشائی بنا ہوا تھا ، یزیدیت کے خوف سے کوئی بھی جرات نہیں کر رہا تھا کہ حق کی آواز بلند کرے ، ایک ماہ قبل سفیر حسین حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ میں شہید کر دیا گیا خبر دور دراز تک پھیل گئی مگر امام حسین ؓکی حمایت کے لیے کتنے قافلے نکلے یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کیونکہ حکومت کے خوف سے ہر کوئی خوفزدہ ہوکر گھروں میں رہنے میں ہی عافیت سمجھ رہے تھے ۔ یہی کچھ تو آج بھی غزہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے ، پوری امت مسلمہ مل کر مظلوم فلسطینی عوام کو ظالم اسرائیلی حکومت سے نجات نہیں دلو سکتی ، قبلہ اول بیت المقدس کی بے حرمتی اور اسرائیل کے چنگل سے آزاد کروانے کے لیے کہیں سے کوئی آواز نہیں اُٹھ رہی، ایران کے سوا تمام عالم اسلامی محض قرار دادوں اور مذمتوں پر اکتفا کر رہا ہے اور کچھ اسلامی ممالک تو مذمت کرنے سے بھی گریزاں ہیں اور عوام کو بھی اسرائیلی ظلم و بربریت پر احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں جو ملک آج فلسطینی عوام کی آزادی کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کر رہے وہ کوفیوں سے کم ہیں ؟، یہ سوال ہمیشہ جواب ڈھونڈتا رہے گا۔
پاکستان میں دہشت گردی ایک گھمبیر مسئلہ ہے ، گزشتہ 4دہائیوں سے دہشت گردی کے باعث ہزاروں لوگ موت کے منہ چلے گئے ۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے ریاستی ادارے بھی محفوظ نہ رہے، سول و عسکری اداروں پر دہشت گردی کے بڑے بڑے حملے ہوچکے ہیں ، ملکی سطح کی سیاسی ، حکومتی ،انتظامی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کیا جا چکا ہے ، ریاست نے دہشت گردوں کو کچلنے کے لیے کئی آپریشن کیے ، 2016ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے نتیجے میں جب ایک سو سے زائد معصوم بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا تو اس کے وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے موثر فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور ملک میں چند سالوں تک کافی حد تک امن رہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہمسایہ دشمن ملک بھارت پوری طرح ملوث رہا ہے اور9؍11کے بعد جنرل پرویز مشرف کی افغانستان کے خلاف امریکی حمایت کی بھی ہمیں بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ،افغان سرحد سے بھی دہشت گردوں نے پاکستان کی ناک میں دم کر دیا ۔ دہشت گردی کی بے شمار وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ فرقہ واریت بھی ہے ، 90ء کی دہائی میں شیعہ سنی فساد کروانے کی غرض سے مذہبی جماعتوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے رکھا جسے جنرل پرویز مشرف نے بعض مذہبی جماعتوں پر پابندی لگا کر کسی حد تک قابو پایا مگر فرقہ واریت کے زہر کو جڑ سے نہ اکھاڑا جاسکا۔ پارا چنار سے دہشت گردی کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں ، پارا چنار میں کئی دہائیوں سے امن ناپید ہے، 21نومبر 2024ء کو ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے 44بے گناہ شہری شہید ہوگئے اور 30سے زائد زخمی ہوگئے ۔ ایسی دلخراش خبروں نے پاکستان کی فضاء سوگوار کردی ۔
پارا چنار کئی سال سے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر ہے اور چند ماہ سے تو باقاعدہ دہشت گردوں نے غزہ کی طرز پر پارا چنار کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہوا ہے اور جنگ کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے، سربراہ مجلس وحدت مسلمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس سینیٹ میں کئی بار اس مسئلہ پر آواز بھی اٹھا چکے ہیں مگر بدقسمتی ہے کہ ایک ایٹمی ملک جنوبی پنجاب میں کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف کوئی کامیاب آپریشن کر سکا نہ ہی پارا چنار کے لوگوں کو دہشت گردوں سے آزاد کروا سکا۔ پارا چنار کے لوگ کئی ماہ سے ایک ہی شہر میں محصور ہیں ۔ لوگوںنے آمدو رفت کے لیے اجازت لی تو سیکورٹی اداروں نے قافلہ کی صورت میں اپنی حفاظت میں قافلوں کو روانہ کیا مگر دہشت گردوں نے کتنا دلیری سے سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود بسوں پر فائرنگ کی اور وہاں چن چن کر معصوم بچوں اور خواتین کو بھی شہید کر دیا ۔ وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلیٰ کے پی کے سیاسی جنگ میں مصروف عمل ہیں ، ریاست کو سانحہ آرمی پبلک سکول کی طرز پر دہشت گردوں کیخلاف اعلان جنگ کرنا چاہیے تھا مگر شاید بیان بازی کے بعد سبھی اپنی اپنی سیاست میں مصروف عمل ہو جائیںگے اور پارا چنار لہو لہو ہوتا رہے گا۔ پارا چنار میں انسانیت کا قتل عام جاری ہے، اطلاعات کے مطابق مقامی لوگ اپنے تحفظ کے لیے دہشت گردوں کے ساتھ خود لڑ رہے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگ روزانہ کی بنیاد پر شہید ہورہے ہیں، مگر پاکستان کے اندر خاموشی ہے ، میڈیا کچھ رپورٹ نہیں کر رہا ، انسانی حقوق کی تنظیمیں چپ سادھے ہوئے ہیں ، علماء ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کر رہے، پارا چنار میں مظلوم کی حمایت کی بجائے خاموشی ؟، کیا باقی پاکستانی کوفیوں کا کردار ادا نہیں کر رہے ؟، پارا چنار جس آگ میں جل رہا ہے خدانخواستہ یہ آگ پھیل گئی تو اس سے کوئی نہیں بچے گا۔ ریاستی اداروں ، سیاستدانوں، حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی لعنت کے خاتمہ کے لیے ایک ایجنڈے پر متحد ہوجائیں اور اپنے پیارے وطن پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں۔

جواب دیں

Back to top button