اسلام آباد اتنی بڑی تعداد میں کارکن پہنچیں گے کہ فیصلہ ساز مذاکرات پر مجبور ہوں گے: رؤف حسن

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما رؤف حسن نے کہا کہ اس وقت تحریک انصاف کا ہدف اسلام آباد پہنچنا ہے اور پھر پارٹی قیادت طے کرے گی کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرپرائز کا عنصر رہے۔ ہمیں ابھی اسلام آباد پہنچنے میں بھی کوئی جلدی نہیں ہے۔‘
رؤف حسن نے کہا کہ ’حکومت نے پورے ملک کو کنٹینرستان میں تبدیل کر دیا ہے اس کے ایک دو دن تک یہ مزے اور لے لیں۔ ہم نے کہا تھا کہ یہ احتجاج شروع کر رہے ہیں اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔‘
رؤف حسن نے کہا کہ ان کے مطالبات میں عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی، 26ویں آئینی ترمیم کی تنسیخ، مینڈیٹ کی واپسی اور آئین اور قانونی کی بحالی شامل ہیں۔
اے آر وائی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رؤف حسن نے کہا کہ ’ہم جب اسلام آباد پہنچیں گے تو ہماری جتنی بڑی تعداد ہے وہ فیصلہ سازوں کو ڈائیلاگ پر مبجور کرے گی اور پرامن رستہ نکلے گا، جس کا جو حق ہے وہ ملے گا۔‘
ان کے مطابق کامیابی کا پیمانہ مذاکرات سے ہی طے ہو سے گا۔
’شاید آج بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف عمران خان سے حکومتی ٹیم سے مذاکرات کی اجازت لینے گئے تھے‘
آج ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رؤف حسن نے کہا کہ شاید آج بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف اڈیالہ جیل میں عمران خان سے حکومتی وزرا کے ساتھ مذاکرات کرنے سے متعلق اجازت حاصل کرنے گئے تھے۔ انھوں نے کہا اس خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کہ کیا اس وقت شبلی فراز، اسد قیصراور بیرسٹر گوہر پر مشتمل پی ٹی آئی کی ٹیم سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، وفاقی وزیر امیر مقام، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے مذاکرات کر رہی ہے۔
رؤف حسن نے کہا کہ گذشتہ دن سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایک اقدام اٹھایا اور پھر مذاکرات سے متعلق میٹنگ کی۔
’گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دور شروع ہوا پھر تعطل آ گیا‘
رؤف حسن نے کہا ہے کہ ان کی جماعت سے گذشتہ دنوں مذاکرات شروع ہوئے مگر پھر ان میں تعطل آ گیا، جس کی وجہ سے احتجاج کی کال دی گئی۔ رؤف حسن نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کو بتایا کہ ’میں زیادہ تفصیل سے بات نہیں کر سکوں گا مگر ان مذاکرات میں کوئی حکومتی وزیر شامل نہیں تھا۔‘
رؤف حسن نے کہا کہ ’ہم کہتے رہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ بیٹھے۔ گذشتہ دنوں کچھ سلسلہ آگے چلا۔ پھر تعطل آیا۔ عمران خان نے بھی یہ کہا ہے کہ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی آنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ معاملات آگے بڑھیں اور کچھ حل نکلے۔‘
رؤف حس نے ایک سوال پر کہا کہ وہ ان مذاکرات سے متعلق تفصیلات شیئر نہیں کر سکیں گے۔ ان کے مطابق ’ان تفصیلات کو اگر اس ’سٹیج‘ پر ’پبلک‘ کیا تو معاملات ’ڈیمج‘ ہو سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس حوالے سے پی ٹی آئی کا ایک وفد عمران خان سے جیل ملنے گیا جس میں میں خود بھی شامل تھا مگر پھر کسی وجہ سے ہم عمران خان سے نہیں مل سکے ہیں۔‘
رؤف حسن نے کہا کہ ’جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا تو انھیں یہ کہا گیا تھا کہ وہ دو یا تین سال تک آرام کریں، خاموش رہیں۔ مگر خان صاحب نے کوئی شرط قبول نہیں کی۔‘







