ColumnRoshan Lal

مردانگی، نسوانیت اور انسانیت ؟ 

تحریر : روشن لعل
 یہ تصور عام لوگوں کا ہی نہیں بلکہ بعض دانشور وں کا بھی  ہے کہ مرادنگی کی کوکھ سے تشدد اور جبر جنم لیتا ہے جبکہ نسوانیت امن، صلح، رواداری اور برداشت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس تصور کو جواز فراہم کرنے کی کوششوں کو جاندار تسلیم کرنے کے باوجود ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے  کہ اس میں اب بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ مزید بہتری کے متعلق سوچتے ہوئے خیالات قدیم ترین دور کے انسانوں کے معاملات زندگی تک جا پہنچتے ہیں۔ اس دوران قدیم دور کا جو خاکہ  ذہن میں ابھرتا ہے اس کے مطابق اس  دور میں انسانی زندگی کا تمام تر دارومدار خونخوار حیوانوں سے بھر پور جنگلوں پر تھا۔ انسانوں کو اپنی خوراک کے حصول کے لیے جان دائو پر لگانا پڑتی تھی ۔ اس عمل میں عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔  بلا تفریق مرد وزن ، تمام انسانوں کے لیے شکار حاصل کرنے کے ساتھ خونخوار  جانوروں  شکار بننے کے بھی یکساں مواقع تھے ۔ اس عمل میں خونخوار جانوروں کا سب سے زیادہ شکار انسانی بچے بنتے تھے ۔ قدیم دور میں بھی ممتا کا جبلی جذ بہ مائوں کو اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لییخونخوار جانوروں کے سامنے کھڑا کر دیتا تھا۔ ممتا کے اس جذبے کے باوجود مائوں  کے لیے خود کو اور بچوں کو جانوروں کا شکار بننے سے بچانا بہت کم ممکن ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں اپنے بچوں کی زندگی محفوظ رکھنے کی کوششیں کرتے ہوئے مائوں کے لیے خوراک کا حصول انتہائی خطرناک اور دشوار ترین  کام تھا۔ اسی وجہ سے مائوں نے خوراک
کے لیے اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے دور گھنے جنگل میں جانے سے گریز کرنا شروع کیا۔ مزید خطرات سے بچنے کے لیے قدیم دور کی مائوں نے اپنی خوراک کے لیے زیادہ تر پھلوں پر انحصار کرنا شروع کیا ۔ اس دوران ان کی مشاہدے میں آیا کہ پودے کون سے مراحل طے کرتے ہوئے پھل دینے کے  قابل ہو تے ہیں ۔ اس بات پر غور کرنے کے بعد مائوں پر یہ راز افشاء ہوا کہ بیج سے کس طرح پودا  پھوٹ کر درخت بننے کا سفر شروع کرتا ہے اور کس طرح اس پر کلیاں کھل کے پہلے پھول، پھر پھل بنتی ہیں اور پھلوں کے انسانی خوراک بننے کے بعد باقی رہ جانے والے بیج سے درخت بننے کا عمل کیسے شروع ہو تا ہے۔ اپنے اسی مشاہدے کے مطابق مائوں نے  اپنی پناہ گاہوں کے قریب پودے اگانے کے تجربات کرنے شرع کیے اور یوں دنیا میں پہلی مرتبہ کاشتکاری کا آغاز ہوا۔ کاشتکاری کے کامیاب تجربے کے بعد مائیں اپنے بچوں کے لیے نسبتاً کم خطرے کے ماحول میں نباتات سے خوراک حاصل کرنے کے قابل ہوئیں۔
مرد ابتدا میں عورتوں کے زراعت سے متعلق افعال سے لاتعلق رہا لیکن بعض اوقات جب مرد کو نامساعد حالات کی وجہ سے جنگل سے خوراک حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی تو وہ  پہلے زرعی پیداوار اور پھر زرعی عمل کی طرف بھی راغب ہوا ۔ اس کے بعد جب زرعی پیداوار سے وابستہ اشیا کے ایک دوسرے سے تبادلے کے نظام کی ابتدا ہوئی تو مرد کی رغبت زراعت کی طرف مزید بڑھ گئی ۔ زراعت کی اس افادیت کی وجہ سے  مرد نے اپنی طاقت کے زور پر زرعی کاموں پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کر دیا ۔ مرد کی اس رویے کی وجہ سے زرعی امور میں عورت کا آزاد کردار مردوں کے ماتحت ہوتا چلا گیا۔ اس عمل کے دوران زراعت کے لیے موزوں زمیں کے ٹکڑوں کی طرح ان پر زرعی کام کرنے والی عورتوں پر بھی مردوں کی ملکیت قائم ہونا شروع ہو گئی۔ مردوں نے زیادہ زرعی پیداوار کے لیے درکار زیادہ ہاتھوں کے حصول کے لیے طاقت کے زور پر اپنے حرم میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کا اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ قبل ازیں، مرد اور عورتیں ، برابری کی بنیاد پر، کسی کو پسند کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتے تھے۔ بعد ازاں مردوں  نے اپنی طاقت کے زور پر عورت کا پسند یا ناپسند کرنے کا حق  بری طرح کچل کر رکھ دیا۔ پہلے تو نومولود بچوں کی شناخت ان کی مائوں کی نسبت سے ہوتی تھی مگر پھر عورتوں کی طرح ان کے
بچے بھی مردوں کی ملکیت بن گئے ۔ یوں انسان مادر سری دور سے پدر سری دور میں داخل ہوا۔ مردوں کی نسبت سے پہچانے جانے والے خاندان قبیلوں میں تبدیل ہو نا شروع ہو گئے۔ جس طرح طاقت کے بل پر مرد نے عورت پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اسی طرح طاقتور قبیلوں نے کمزور قبیلوں کے انسانوں اور وسائل کو اپنا محکوم بنانا شروع کر دیا۔ مردانگی سے برآمد ہونے والے طاقت کے احساس سے تشدد کی طرف مائل ہونے والے مردوں نے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قابض ہونے کے لیے تباہ کن جنگوں کی تاریخ رقم کرنا شروع کر دی۔ عورتوں کے ذریعے معرض وجود میں آنے والے زرعی عمل کی ضرورتوں کی وجہ سے زرعی آلات کی ایجاد کا آغاز ہوا تھا ۔ اس کے بعد مرد کے تسلط کی خواہشوں نی نئے سے نئے جنگی ہتھیاروں کی ایجادات کی راہ ہموار کی۔ جہاں کامیاب حملہ کے لیے نئے سے نئے اور زیادہ سے زیادہ تباہ کن ہتھیار ایجاد ہوتے رہے وہاں دفاع کے لیے محفوظ عمارتوں کی تعمیر کا عمل بھی شروع ہوا۔ ان ایجادات کا اثر جنگ کے میدانوں کے علاوہ انسانی زندگیوں کو بالعوض سہولتیں فراہم کرنے پر بھی ہوا۔  جدید عسکری طاقت کے بل پر جہاں ظلم و تشدد سے کمزور انسانوں کے علاقوں کو تسخیر کیا گیا وہاں منافع کے حصول کے لیے ان علاقوں کے مسخر کیے گئے لوگوں کو اپنی صنعتوں میں تیار مال کی خریداری کا پابند بھی بنا دیا گیا۔ عسکری طاقت کے زور پر جہاں کمزوروں کو محکوم رکھنے کے لیے  انہیں بحیثیت قوم غلام بنا کر رکھا جارہا تھا وہاں اپنے جیسی دوسری طاقتوں کے ساتھ جنگیں بھی جاری رکھی گئیں تاکہ زیر تسلط محکوموں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے  ان کے وسائل کو اپنے زیر قبضہ لایا جاسکے۔ اس طرح کی جنگوں کے تسلسل کے دوران دنیا میں جنگ عظیم اول و دوم کی تباہی برپا ہوئی۔ جنگوں کی تباہیاں اور اپنوں کی اموات، جہاں جنگجوئوں میں انتقام کا جذبہ پیدا کرتی رہیں وہاں ہر دور میں درد دل رکھنے والے انسانوں میں قیام امن کی خواہش بھی بیدار ہوتی رہی۔ عظیم جنگوں کی تباہیوں اور لاکھوں لوگوں کی اموات نے بلا لحاظ جنس امن پسند انسانوں میں انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ممتا کا وہ جذبہ پیدا کیا جو اپنے بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے زمانہ قدیم کی مائوں میں تھا ۔ اس جذبہ کو مردانگی یا نسوانیت کی بجائے انسانیت کا نام دیا گیا۔ انسانیت یہی ہے کہ کوئی کس قدر بہتر انسان ہے۔ انسانیت سے مراد  صرف کسی فرد کی مدد نہیں بلکہ ان معاشروں اور ملکوں کے انسانوں کے تحفظ اور  فلاح  کا احساس ہے جہاں وہ ضرورت مند ہیں۔انسانیت کا مطلب کمزور انسانوں، معاشروں اور خطوں پر تسلط کا خاتمہ ہے۔ انسانیت کا مطلب کسی انسان، معاشرے اور خطے کے لوگوں کو کسی بھی طرح غلام اور محکوم بنائے رکھنے  کی مخالفت ہے۔ انسانیت کا مطلب کسی بھی قسم کے ظلم ، جبر، تعصب، امتیاز اور تشدد کا خاتمہ، امن کا قیام، صلح کل، رواداری اور برداشت کا فروغ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مردانگی کی نسبت، نسوانیت میں نفاست، تحمل، برداشت کا عنصر زیادہ ہے مگر انسانیت سی بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button