Column
انا پرست تھے دونوں مفاہمت نہ ہوئی

تحریر : صفدر علی حیدری
شیکسپیئر نے سچ ہی کہا تھا:’’ دنیا ایک اسٹیج ہے ہر انسان اداکار ۔ ہر کوئی اسٹیج پر آتا ہے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے ‘‘۔
کچھ لوگ زندگی کو بھی ایک کھیل ہی سمجھ لیتے ہیں۔ پھر وہ کھل کھیلتے ہیں اور اکثر اس کھیل میں ہار جاتے ہیں۔ یہی لوگ کہتے ہیں کہ محبت اور کھیل سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ کھیل کھیلنے اور محبت جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے کا نعرہ بلند کرنے والوں کی ہمارے یہاں کوئی کمی نہیں۔
قائد اعظمؒ کے آخری ایام تھے، کچھ رہنما آپ سے ملنی آئے۔ جب وہ چلے گئے تو انہوں نے بڑے دکھی لہجے میں اپنی بہن فاطمہ جناحؒ کو بتایا کہ یہ لوگ ان کی خیریت پوچھنے نہیں، یہ دیکھنے آئے تھے کہ وہ کتنے دن کے مہمان ہیں۔
سو کہنا ہو گا کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس کھلواڑ کی شروعات ہو گئی تھی۔ اس کھلواڑ کے پہلے مرحلے میں قائد اعظمؒ کی ایمبولینس خراب کر دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں خان لیاقت علی خان کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔
وطن عزیز میں فوجی بغاوتوں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ مارشل لاء کے نفاذ کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا، جس کا آغاز 1958 ء میں ہوتا ہے ۔ ایک فوجی افسر محمد ایوب خان نے صدر اسکندر علی مرزا کا تختہ الٹ کر انھیں جلا وطن کر دیا۔ راولپنڈی کور مبینہ طور پر تمام مارشل لا لگانے یا آئین کی خلاف ورزی اور ملک میں جمہوری نظام کو تباہ کرنے میں ملوث تھی۔ راولپنڈی پہلے ایک چھوٹا سا شہر تھا جس کا کوئی فوجی ماحول نہیں تھا، اس شہر نے برطانوی راج سے پہلے کوئی خاص جنگ بھی نہیں دیکھی تھی۔ آرمی کے کسی دوسرے کور کے ٹیک اوور میں ملوث ہونے کی کوئی
اطلاع نہیں ہے۔ 1951ء سے اب تک ایسی متعدد کامیاب کوششیں ہو چکی ہیں۔ 1947ء میں اپنے قیام کے بعد سے، مملکت پاکستان نے کئی دہائیاں فوجی حکمرانی میں گزاری ہیں، (1958ء ۔1971ء ، 1977ء ۔1988ء ، 1999ء ۔2008ء )1953ء میں، گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کر دیا حالاں کہ اسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی حمایت حاصل تھی۔ پھر 1954ء میں اس نے آئین ساز اسمبلی کو ہی برخاست کر دیا تاکہ اسے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کرنے کے لیے آئین میں تبدیلی کرنے سے روکا جا سکے۔ فیڈریشن کی پاکستان بمقابلہ نمائندہ اداروں کی حمایت کے معاملے میں عدالتوں کی ناکامی کے نتیجے میں مولوی تمیز الدین خان نے ایک ایسی مثال فراہم کی جس کی وجہ سے بعد میں منتخب حکومتوں کے خلاف مزید کھلی فوجی مداخلت کو نظریہ ضرورت استعمال کرتے ہوئے جائز قرار دیا جاتا رہا ۔ اسی دوران یحییٰ خان کی حماقت خاص کے سبب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ رونما ہوا۔ جس سے ملک دو لخت ہوا ۔ آپریشن فیئر پلے 4جولائی 1977ء کی آدھی رات کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں پاکستانی فوج کی طرف سے کی گئی بغاوت کا کوڈ نام تھا۔ جنرل ضیاء نے بھٹو، ان کے وزراء اور پاکستان پیپلز پارٹی
اور پاکستان نیشنل الائنس دونوں کے دیگر رہنمائوں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ ایک قومی ٹیلی ویژن خطاب میں ، جنرل ضیاء نے اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی ہیں اور یہ کہ پاکستان کا آئین معطل کر دیا گیا ہے۔
صدر جنرل ضیاء کے نافذ کردہ مارشل لاء نے قدامت پرستی کی سخت لیکن جدید شکل متعارف کرائی، جس نے قوم پرست اور مذہبی پروگراموں کو فروغ دیا۔ ضیاء کی آمریت کے تحت ملک کی ایک بھاری اسلامائزیشن ہوئی ( جس کی علامت نام نہاد حدود آرڈیننس تھے) جس نے ملک کو محمد علی جناحؒ کے غیر فرقہ وارانہ وژن سے دور کر دیا ۔اکتوبر 1999ء میں آرمی چیف کے وفادار سینئر افسروں نے پرویز مشرف کے سری لنکا کے دورے سے واپسی پر مشرف کو برطرف کرنے اور ان کے طیارے کو پاکستان میں اترنے سے روکنے کی شریف حکومت کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزراء کو گرفتار کر لیا۔
یہ اب تک کا آخری باقاعدہ مارشل لاء تھا۔ اس کے بعد مارشل لاء لگانے کی کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔ اب باقاعدہ مارشل لاء لگانے کے بجائے پس منظر میں رہ کر پتلی تماشے کا آغاز ہوتا ہے ۔ بے نظیر کو راستے سے ہٹایا گیا مگر ’’ اتفاق‘‘ سے ان کو حکومت بھی مل گئی ۔ اگلی بار لیگ کی تھی مگر بعد میں پلان میں تبدیلی کر دی گئی ۔ اب ایک نئے کھیل کی شروعات ہوئی کہ تیسری پارٹی میدان میں آ گئی تھی۔ پانامہ کے ہنگامے سے ایک نئے سیاسی تماشے کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ نواز شریف کو راستے کو جس طرح ہٹایا گیا وہ ایک تاریخ ہے۔ اسمبلی نے اپنی مدت ضرور پوری کہ مگر حکمران جماعت کے لیڈر کو اقتدار سے دور کر دیا گیا۔ اب نئے پلان کے بموجب تحریک انصاف کو کراچی کی سیٹیں دلوا کر اقتدار میں لایا گیا۔ خلائی مخلوق کا خیال تھا کہ وہ جی حضوری کریں گے مگر ۔۔۔۔
اب ایک اور ڈرٹی گیم کا آغاز ہوتا ہے۔ تیرہ جماعتوں کا غیر فطری اتحاد وجود میں آیا اور عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی گئی۔ ایک منتخب حکومت کو ایک بار پھر چلتا کیا گیا۔ اس فائول پلے نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔
کبے کو لات راس آ گئی۔
کپتان کی شہرت میں اتنا اضافہ ہوا کہ ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ ایسا جن بن گیا تھا کہ جسے بوتل میں بند کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو گیا۔
الیکشن سے پہلے کئی اقدامات کیے گئے ۔ مقصد کپتان کا رستہ روکنا تھا۔ انتخابی نشان تک چھین لیا گیا مگر ۔۔۔ تحریک انصاف ایک سو اسی سیٹیں لے گئی۔
جس کا توڑ فارم سینتالیس کے ذریعے کیا گیا۔ ہارے ہوئوں کو جس طرح اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا وہ اپنا جگہ ایک واقعہ ہے بلکہ وقوعہ۔
ڈرا ہوا بزدل آدمی مرنے سے پہلے روز مرتا ہے۔ سو خوف کی وجہ سے اسے پابند سلاسل کر دیا گیا۔ سیکڑوں مقدمات درج کر دئیے گئے۔ اکثر سے وہ باعزت بری ہو چکا ہے۔ کچھ دن قبل اسے ایک بڑے مقدمے میں رہا کرنے کا حکم دیا گیا مگر ایک اور مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی۔
اب بڑا احتجاج شروع ہونے پر پورے ملک کو بند کر دیا گیا ہے۔ کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا کہ لوگ اسلام آباد آ سکیں ۔ رات کو چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا جائے گا ’’ سوا دو سو افراد اس احتجاج میں شریک ہوئے‘‘۔ ایسا کب تک چلے گا ؟، یہ کھلواڑ کب تک چلے گا ؟، کب تک سیاسی معاملات عدالتوں میں پیش ہوتے رہیں گے ؟، کب تک سیاسی لڑائیاں سپریم کورٹ میں لڑی جاتی رہیں گی ؟۔
مجھے لگتا ہے کہ کوئی بھی فریق ہار مارنے کو تیار نہیں، اگر ایسا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو اس میچ کو ڈرا قرار دے دینا چاہیے کہ کھیل میں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے۔
اس ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے دعوے دار، قوم کا دیوالیہ نکال چکے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس کھلواڑ کو بند کر دینا چاہیے۔ کھیل ہو یا جنگ کہیں بھی سب جائز نہیں ہوتا۔ فائول پلے والے اکثر اس کھیل میں بدترین شکست کا شکار ہوتے ہیں اور وہ بد ترین شکست کھا بھی چکے ہیں۔ اب وہ نہ مانیں تو دیگر بات ہے۔
اس ملک کے عوام کے ساتھ اگر آپ لوگوں کو ذرا سی بھی ہمدردی ہے تو براہ کرم اب بس کر دو بس۔
شاعر نے کہا تھا
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں مفاہمت نہ ہوئی





