Column

عورتوں کے درمیان تفریق اور مسائل  

تحریر : آصف علی درانی
 برسوں پہلے ایک اشنا نے کہا تھا کہ عورت اور مرد کے موضوع کو زیر بحث لانا وقت کا ضیاع ہے، ہم نے بھی کہا کہ اپنا سفر جاری رکھیں گے، دیگر موضوعات پر گپ شپ سے شروع کر کے تبصرہ کرتے رہیں گے، لیکن معاشرے میں عورت اور مرد کے جو رویے ہیں، ان پر میرا مشاہدہ جاری رہتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین کا عالمی دن بہت جوش و خروش سے ہر سال منایا جاتا ہے، لیکن کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ یہ کوئی رسم تو نہیں بن گئی، کیونکہ یہ صرف ایک دن منایا جاتا ہے۔ خیر، اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ، جو لوگ یہ کالم پڑھ رہے ہیں، نظر گل نظر کا ذکر  میں زیادہ تر  کالم میں کرتا ہوں۔ وہ مسائل کو قریب سے دیکھتا ہے لیکن کہتا ہے میرا نظر دوسروں سے مختلف ہے، اس لیے میں چپ رہتا ہوں، حالانکہ نظر اور زبان الگ الگ اعضا ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عورت کو آج تک وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو وہ چاہتی ہے۔ زیادہ تر خواتین اس کا ملبہ صرف مردوں پر ڈالتی ہیں اور عورت کو بری الذمہ قرار دیتی ہیں یا پھر اُس پر تنقید کرتی ہیں۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان سب میں مردوں کے بجائے عورتوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہی۔
عورت جو آج بھگت رہی ہے، اس میں سارا قصور عورت کا ہے۔ معاشرے میں جب عورت پیدا ہوتی ہے تو سب سے پہلے ساس اور گھر کی دیگر خواتین مبارک باد دیتی ہیں، اور پھر ایک ایسا راگ گایا جاتا ہے کہ کیوں نہ لڑکا پیدا ہوا؟ ہماری قسمت میں خوشی نہیں، اور دوسری طرف سے ایک اور خاتون کہتی ہے: ’’ تمہاری بہو کی قسمت اچھی نہیں‘‘۔ ساری خواتین اپنے اپنے انداز میں کچھ نہ کچھ کہتی ہیں۔ اگر آبادی کی شرح کو دیکھیں تو بچے دو ہی اچھے  لیکن پاکستانی معاشرے میں جب تک لڑکا پیدا نہیں ہوتا، تب تک خوشی کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ بس  اچھے اچھے اچھے ۔۔۔ جب چار یا چھ لڑکیوں کے بعد لڑکا پیدا ہوتا ہے، تو گھر میں اتنی خوشی ہوتی ہے کہ مہینوں تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اب وہ سب سے پہلی یا بڑی بچی یہ سب کچھ دیکھتی ہے، سوچتی ہے۔
تو ماں کا رویہ ان لڑکیوں سے اتنا مختلف ہوتا ہے جتنا پنجاب کا پختونخوا اور بلوچستان سے۔۔۔۔
جب وہ لڑکا بڑا ہوتا ہے، تو غریب گھرانے میں بھی وہ جو چاہتا ہے، سب کچھ دستیاب ہوتا ہے، اس کو اچھے سکول میں داخل کرایا جاتا ہے، اور اگر گھرانہ مالی طور پر بہتر ہو تو ہر سال لڑکے کی سالگرہ بھی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ تو یہاں پر وہ عورتیں جو عورت سے نفرت کرتی ہیں، اصل میں ماں کی روپ میں عورت ہیں۔ اب جب یہ چھ لڑکیاں بڑی ہوتی ہیں، تو ماں کہتی ہے کہ ’’ گھر کے کام بھی کروں اور بھائی کا خیال بھی رکھوں‘‘۔  ایک وقت آتا ہے کہ جب روٹی دیر سے پک جائے، تو پھر گھر میں لڑکی کی خیر نہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ باپ بھی تو گھر
میں ہوتا ہے، کیا وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کہتا؟ تو جس طرح زندگی وہ بچہ گزار رہا ہے، اس کو ہر چیز میسر ہے۔ باپ نے یہ سب کچھ اپنی ماں اور گھر کی خواتین سے سیکھا تھا۔ اس طرح جب ان لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں پیدا ہوتے ہیں، تو وہ اپنی ماں کی طرح ہی برتاؤ کرتی ہیں۔ تو آج جو معاشرے میں بگاڑ ہے، ساس اور بہو کی لڑائی، یا عورتوں کے ایک دوسرے سے لڑنے کے جو مسائل ہیں، ان میں زیادہ تر قصور عورت کا ہے۔ عورت کو چاہیے کہ وہ یہ تفریق ختم کرے تاکہ گھروں میں عورتوں کی آپسی دشمنی، حسد، اور دوسرے مسائل ختم ہو سکیں۔ اگر یہ تفریق ختم ہو جائے، تو کوئی عورت دوسری عورت کو قتل نہیں کرے گی۔
معاشرتی بگاڑ کی ایک بڑی وجہ خواتین کا آپس میں حسد، بغض اور دشمنی ہے، جو گھر کے ماحول کو خراب کرتی ہے۔ ساس اور بہو کے تعلقات اکثر ناخوشگوار ہوتے ہیں کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کو کمتر سمجھتی ہیں یا اپنی برتری قائم رکھنا چاہتی ہیں، جس کے نتیجے میں گھر کے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں اور گھریلو سکون خراب ہو جاتا ہے۔ خواتین کے درمیان حسد اور بغض نہ صرف رشتہ خراب کرتا ہے بلکہ خاندان میں مزید مسائل کو جنم دیتا ہے، یہ جذبات دوسروں کی خوشی دیکھنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتے ہیں اور آپسی تعلقات کو خراب کر دیتے ہیں۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا مخالف نہ سمجھیں، بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ اگر خواتین ایک دوسرے کے لیے نرمی، محبت، اور برداشت کا مظاہرہ کریں تو نہ صرف ان کے آپس  تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ پورے گھر کا ماحول خوشگوار ہو جائے گا۔ اگر خواتین حسد اور دشمنی کو ختم کرنے کی کوشش کریں تو کئی گھریلو اور معاشرتی مسائل خود بخود حل یا ختم بھی ہو سکتے ہیں۔
عورت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر وہ آپس کی تفریق ختم کر دے تو معاشرے میں ایک مثبت اور خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے۔ عورتوں کے درمیان حسد، بغض، اور دشمنی کی جڑیں اکثر چھوٹے گھریلو معاملات، غلط فہمیوں، یا غیر ضروری مقابلے بازی میں پیوست ہوتی ہیں۔ اگر عورت ان منفی جذبات کو ختم کر کے ایک دوسرے کی ترقی اور کامیابی کو خوشی سے قبول کرے تو یہ نہ صرف انفرادی زندگیوں بلکہ خاندانوں اور معاشرے پر بھی گہرا اثر ڈالے گی۔
ایک دوسرے کی عزت کریں، مسائل کو گفتگو اور سمجھداری سے حل کریں، اور دوسروں کی کامیابی کو اپنی شکست نہ سمجھیں۔ جب عورتیں اپنی ہم جنس کو دشمن کے بجائے اپنی ساتھی سمجھیں گی تو گھروں میں سکون، اتحاد، اور خوشی کا ماحول پیدا ہوگا۔
یہ اچھا اور دوستانہ رویہ گھریلو دشمنیوں، حسد، اور رنجشوں کو ختم کر سکتا ہے،  عورتوں کے درمیان اتحاد معاشرے کو مضبوط بنائے گا، اور ایسے افسوسناک واقعات جیسے عورت کے ہاتھوں عورت کا قتل، جو کہ تفریق اور نفرت کی انتہا ہے، کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
عورت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ معاشرے کی تعمیر میں ایک اہم ستون ہے۔ اگر وہ اپنی سوچ کو مثبت بنائے اور اپنی ہم جنسوں کے لیے محبت، برداشت، اور حمایت کا جذبہ اپنائے تو وہ نہ صرف اپنی بلکہ پوری نسلوں کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب عورت اپنی اہمیت کو سمجھے اور اپنی ہم جنس عورت کو حریف کے بجائے اپنی ساتھی اور مددگار مانے۔

جواب دیں

Back to top button