Column

تا قیامت مذاکرات نہ ہونگے ؟

تحریر : سیدہ عنبرین
  طنزیہ انداز میں سوال اٹھایا جارہا ہے کتنے آدمی تھے۔ تو حقیقت پسندانہ جواب ہے کچھ معلوم نہیں کوئی انداز نہیں، گنتی ممکن ہی نہ تھی لیکن دوسری طرف کے واضع اعداد شمار موجود ہیں، اسلام آباد پولیس کی کل نفری، رینجرز، پنجاب پولیس کو جمع کر لیا جائے تو 25سے 30ہزار سے کم کیا ہونگے، جی ٹی روڈ مکمل بند، موٹر وے پر پہنچنے کے آٹھ ذیلی راستے بند، راولپنڈی اور اسلام آباد مکمل گھیرے میں، صرف اسلام آباد کے چہار جانب 1600کینٹینرز، ان کے اوپر مزید کئی سو کینٹنرز، اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام ہوٹل، ٹھکانے، سرائیں خالی، ہوسٹل، گیسٹ ہائوس تک خالی کرائے گئے۔ اسلام آباد کے راستے کی طرف تمام پٹرول پمپ بند کرا دئیے گئے تاکہ ملک کے کسی کونے سے آنے والے مٹھی بھر افراد اسلام آباد نہ پہنچ سکیں۔ مزید احتیاط کے طور پر پورے پنجاب کے بس اڈے بند کرا دئیے گئے کہ کوئی بس ویگن وہاں سے دارالحکومت کی طرف رخ نہ کرے۔ مٹھی بھر افراد کا کس قدر خوف تھا۔ سرکار لرزاں نظر آئی پھر بھی دل کی تسلی نہ ہوئی، عدالت کو بیچ گھٹسیا گیا تاکہ راستے روکنے میں اس کی طاقت سے فائدہ اٹھایا جا سکے، نتیجہ کیا نکلا کیا ہر شخص کے دل پر دھاک بیٹھ گئی وہ نظام کے ہاتھ پر بیعت کیلئے تیار ہو گیا۔ یقیناً نہیں، راستے دور ہونے کے سبب جو ہسپتالوں میں نہیں پہنچ سکے جنہیں ایمبولینس نہ مل سکی، جو اپنے پیاروں کے جنازوں پر نہ پہنچ سکے جنہیں ملک سے باہر جانا تھا، جو ایئر پورٹ نہ پہنچ سکے کیا وہ سرکار کی محبت کے اسیر ہو گئے، جواب ہے یقیناً نہیں۔
جنہیں خواہ مخواہ راتوں کو چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا حالانکہ ان کا کسی احتجاج میں شریک ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ وہ اور اس کے اہل خانہ، جیسے گرفتار کرنے کیلئے دھاوا بولا گیا وہ جان بچانے کیلئے بھاگا، پائوں کسی چیز سے الجھا تو منہ کے بل زمیں پر گرا اس کے گرنے کے بعد اس پر اتنی لاٹھیاں برسائی گئیں کہ وہ دم توڑ گیا۔ اس کے کمسن بیٹے نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ میرے بابا جب زمین پر گرے تو پولیس والوں نے ان کے سر پر اینٹیں ماریں، جس بچے کے سامنی اس کے باپ کو بغیر کسی معقول وجہ کے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہ زندگی بھر اب ان کی محبت کے گیت گائے گا، جواب ہے یقیناً نہیں۔ البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ جب بھی ان سبز پوشوں کو دیکھے گا اگر کچھ کرنے کی سکت نہ بھی رکھتا ہوگا تو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر ان کی طرف ضرور اچھالے گا، جس طرح فلسطینی بچے ظالم اسرائیل سپاہیوں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں تو جب بھی ان پر پتھر ضرور پھینکتے ہیں یہ جذبات صرف اس ایک بچے کے نہیں سیکڑوں ہزاروں بچوں کے ہونگے جن کے سامنے ان کے ماں، باپ، بہن، بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سروں سے چادریں چھینی گئیں۔ گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی اور قیمتی اشیاء تک لوٹ لینے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
آج ایک مرتبہ پھر کراچی کے ایک نامور قانون دان کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ نظروں کے سامنے گھوم گیا، ان کے گھر پر یلغار ہوئی، انہیں، ان کے بیوی بچوں اور ان کے بچوں کو رسیوں سے باندھ کر پورے گھر کی تلاشی لی گئی، گھر سے روپیہ پیسہ اور زیور تک لوٹ لیا گیا، یہ سب نقاب پوش تھے، کسی کو کسی کی شکل نظر نہ آئی، واقعہ میڈیا تک پہنچا، ایف آئی آر کئی روز بعد درج ہوئی، مگر کاغذی کارروائی سے آگے کچھ نہ ہوا، بعد ازاں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان معروف قانون دان سے بذات خود معذرت کی، لیکن لوٹا ہوا مال وہ بھی واپس نہ دلا سکے، کیا ان کی معذرت سے بلکہ خالی خولی معذرت سے اس شریف آدمی اور اس کے اہل خانہ کے دل پر لگے زخم بھر گئے ہونگے، یقیناً نہیں۔ طاقت کے زور پر دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہوئی آہوں کو روکا جا سکے گا، ظلم کا شکار ہونیوالوں کے دل موم ہو سکیں گے، لوٹا ہوا، الیکشن غاصبوں کا حق سمجھ لیا جائے گا، کیا 47کے زور پر کوئی تاحیات حکومت میں رہ سکتا ہے، جواب ہے یقیناً نہیں۔ جب ہر بات کا جواب نہیں میں ہے تو آئندہ الیکشن چاہے 50برس بعد کرائے جائیں، نتیجہ وہی نکلے گا جو 8فروری کو برآمد ہوا تھا، یہ نتیجہ نوشتہ دیوار ہے، اسے پڑھ کر سمجھنے کی کو شش کرنی چاہیے، آنکھیں بند کر لینے سے نتیجہ نہیں بدلے گا، حکومت کے گھر جانے کا وقت قریب آجائے گا۔
احتجاج سے ایک روز قبل 9مئی کے 10مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں، سزا سنانے کا حوصلہ کریں، سال سے زیادہ بیت گیا یہ سنتے ہوئے کہ تمام گرفتار مجرموں کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر دیر کیسی، مجرم تو رعایت کے مستحق نہیں ہوتے، انہیں سزا نہ سنانے کی رعایت کون دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے۔ قریباً اڑھائی برس سے بڑوں کے ساتھ ساتھ نابالغوں کو یہ آفر کرانے کی کوشش جاری ہے کہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس جماعت کے بطن سے کنگز پارٹی بھی پیدا کر لی گئی، جو پیدا ہوتے ہی مفلوج نظر آئی، پھر بتایا گیا کہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک دھڑے کا سربراہ اسے بنایا گیا جو اپنی ٹانگوں پرکھڑا نہیں ہو سکتا، ٹانگیں کانپتی ہیں، دھڑکا لگا رہا ہے اب گرا کے تب گرا، اس کے ساتھ پارٹی کے ساڑھے پانچ افراد تھے، آج تک چھ نہیں ہوسکے۔
شنگھائی تنظیم کے اجلاس سے پہلے احتجاج کی کال کو واپس لینے کیلئے کیا کیا جتن نہ کئے گئے۔ اڈیالہ کا طواف یوں کیا جارہا تھا جسے یہ کوئی مذہبی فریضہ ہو، پھر فجر کے وقت آہنی دروازے کھلے اور بعد از منت سماجت اس وعدے پر یہ کال منسوخ کرا لی گئی کہ بے گناہوں کو رہا کر دیا جائیگا۔ ملک میں قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جائیگا، مطلب نکل گیا تو طوطوں نے اسی طرح آنکھیں پھیر لیں جس طرح طوطا آنکھیں پھیرتا ہے، یہی حربہ دوسری مرتبہ آزمایا گیا، دنیا جانتی ہے اس مقصد کے حصول کیلئے مذاکرات کے کئی دور ہوئے جنہوں نے ملکی مفاد میں اپنی پہلی کال واپس لی تھی اس مرتبہ رضا مند نہ ہوئے تو ہزیمت کو چھپانے کیلئے واعظ جاری ہو گئے کہ مذاکرات تو شروع ہی نہیں ہوئے۔ اتنی بڑی اتنی طاقتور ریاست وقت پڑنے پر کیوں پائوں پڑتی ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی کوئی طاقت نہیں کوئی وقعت نہیں، پس اب فیصلہ سنایا جائے تا قیامت مذاکرات نہیں ہونگے، قیامت سے ڈرنا چھوڑیں فیصلہ سنائیں۔

جواب دیں

Back to top button