Column
افسر شاہی ۔ چند مشاہدات

تحریر : حافظ محمد قاسم مغیرہ
ایک ڈپٹی کمشنر کے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ نظر آئی کہ آج ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر نے بازاروں کا دورہ کیا۔ بیکریوں میں زائد المیعاد اشیاء نظر نہ آئیں۔ قیمتیں بھی مناسب تھیں۔ ریٹ لسٹیں آویزاں تھیں۔ گویا اس سے سمجھ لیا گیا کہ خدمت کا حق ادا ہوگیا ، انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کر دیا۔ زائد المیعاد اشیاء سے مجھے یاد آیا کہ ایک روز میں نے ایک بیکری میں ہر بیکری آئٹم پر ایکسپائری کی تاریخ لکھی دیکھی تو بیکری پر کام کرنے والے ایک لڑکے سے پوچھا کہ جب کوئی چیز ایکسپائر ہو جائے تو آپ اس کا کیا کرتے ہیں۔ اس نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر جواب دیا کہ ہم پرانا سٹیکر اتار کر نیا سٹیکر لگا دیتے ہیں۔ ریٹ لسٹ سے متعلق سوشل میڈیا کی زینت بننے والی کارکردگی بھی وضاحت کی متقاضی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ محض ریٹ لسٹ آویزاں کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ضلعی انتظامیہ کی اصل کارکردگی یہ ہے کہ ریٹ لسٹ پر عمل کرائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریٹ لسٹ کی پابندی چھوٹے دکان داروں سے کرائی جاتی ہے، بڑے مگر مچھوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ تندور والوں کو پابند کیا گیا ہے کہ روٹی اور نان اس قیمت پر فروخت کرنے ہیں جب کہ فائیو سٹار ہوٹلز اس پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔
مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے اور تربیت پانے کے بعد پہلی پوسٹنگ پر اسسٹنٹ کمشنرز کے رویے اور ان کی پھرتیوں سے لگتا ہے کہ بس ابھی سب کچھ درست ہو جائے گا لیکن عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ کسی شہر میں پوسٹنگ کے چند دن بعد تک ہر اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر یہ تاثر دیتا ہے کہ افراتفری مچانے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ جب کہ ایسا کرنے سے مزید بدعنوانی کے راستے کھلتے ہیں۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے؟ ۔ ایک مثال سے واضح کرتا ہوں چند برس قبل مجھے لیبر ڈیپارٹمنٹ میں انٹرن شپ کرنے کا موقع ملا۔ رمضان بازار میں ڈی سی او کی آمد کے موقع پر مارکیٹ کمیٹی کے اہلکار سر عام پھل فروشوں سے یہ کہتے پائے گئے کہ تھوڑی دیر کے لیے کم قیمتیں آویزاں کرلو۔ ڈی سی او کے دورے کے بعد قیمتیں بڑھا لینا۔ ڈی سی او ایک لائو لشکر کے ساتھ آئے اور سب اچھا کی رپورٹ کے ساتھ رخصت ہوگئے۔ مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ اسی رمضان بازار کا قصہ ہے کہ ایک روز ڈی سی او خدم و حشم کے ساتھ تشریف لائے ، بازار کا دورہ کیا اور ایک قصاب سے کہا کہ دکان پر اگر بتیاں لگا دیں۔ گویا اگر بتیاں لگوانے کے لیے ہی اتنا سفر کیا۔
افسر شاہی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے دفتری امور درست طریقے سے انجام دینے کے بجائے ، اپنے دفتر سے چالیس میل دور ایک دہی بھلے والے کا احتساب کرنے نکل پڑتے ہیں۔
ایک روز لیبر ڈیپارٹمنٹ کے آفس سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ بازاروں کا دورہ کیا جائے اور کم تولنے والے دکان داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ البتہ ڈی سی او کی طرف سے ہدایت ہے کہ فلاں فلاں دکان پر مت جائیں، وہ ایک مجسٹریٹ کے بھائی کی دکان ہے۔ اسے برہمن ہونے کی بنا پر استثنیٰ حاصل ہے۔
ایک روز گوجرانوالہ میں ایک نجی سکول کی دیوار گرنے سے سات بچے ہلاک ہوگئے۔ بچوں کی ہلاکت کے فوراً بعد ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی اور شہر کے تمام سکولوں کی عمارتوں کا معائنہ کرایا گیا۔ مجھے چند سکولوں میں جانے کا موقع ملا۔ ان سے عمارت سے متعلق کچھ دستاویزات کا تقاضا کیا تو معلوم ہوا کہ مطلوبہ دستاویزات اسسٹنٹ کمشنر نے جاری نہیں کیں۔ افراتفری کا انداز ملاحظہ فرمائیے کہ ضلعی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے پہلے چھاپہ مار ٹیمیں دوڑا دیں۔ اس روز تفویض کئے گئے علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد سکولوں کی حالت کی رپورٹ جمع کرا دی گئی۔ اس کے بعد کچھ علم نہ ہوسکا کہ ضلعی انتظامیہ نے سکولوں کی عمارتوں کی حالت سنوارنے کے لیے کیا کیا۔ انتظامیہ حرکت میں آنے کے لیے کسی حادثے کی منتظر ہوتی ہے، حادثے کے بعد چند دن شور شرابا ہوتا ہے، پھر وہی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ کسی مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کے بجائے چند دن کی ہنگامہ خیزی افسر شاہی کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔
یہ طبقہ کھلی کچہری لگا کر اس کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر لگانا نہیں بھولتا۔ رعونت سے بھرے ہوئے یہ افسر جب مصنوعی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں تو کمال کر دیتے ہیں۔ عجز و انکسار کے جوبن پر بھی سائلین کو ’’ تو‘‘ اور ’’ تم‘‘ کہنا نہیں بھولتے۔ ’’ ہاں بی بی تیرا کیہ مسئلہ اے‘‘۔۔۔۔۔ یہ کھلی کچہری کے موقع پر برتا گیا طرز تکلم ہے۔ بند دفاتر میں ان کی کوثر و تسنیم سے دھلی گفتگو کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔
جب یہ سطریں لکھ رہا تھا تو ایک خبر موصول ہوئی کہ ساہیوال ڈویژن کے کمشنر نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق سموگ سے نمٹنے کے لیے ’’ نو ڈرائیونگ ڈے‘‘ ڈے منایا جائے گا۔ اس دن تمام سرکاری ملازمین یا تو پیدل دفتر پہنچیں گے یا سائیکل پر۔ یعنی سموگ سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دن ڈرائیونگ نہ کی جائے۔ اس ایک دن کے گزرنے کے بعد کیا ہوگا؟ اس پر قانون خاموش ہے۔ سموگ سے نمٹنے کے لیے سال بھر کا لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر برس جب سموگ سر پر ہو تو ایک ہنگامی صورتحال کے نفاذ اور افراتفری برپا کر دینے سے ماحولیاتی مسائل حل نہیں ہوں گے۔
پاسپورٹ کے دفاتر کے باہر درخواست گزاروں کی طویل قطاریں، ایجنٹ مافیا، رشوت ستانی اور پاسپورٹ کے حصول میں بے جا تاخیر افسر شاہی کی نالائقی کا بین ثبوت ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے حکم پر ہر صبح پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے آفیسر کسی سکول میں جا پہنچتے ہیں اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیتے ہیں۔ کبھی یوں نہیں ہوا کہ سکول میں سہولیات کے فقدان پر ضلعی انتظامیہ کا کوئی ہنگامی اجلاس ہوا ہو۔ بہت عجیب صورت حال ہے کہ افسر شاہی سرکاری سکولوں کا دورہ کرتی ہے تو دھونس دھمکی کے لیے ، اور ڈویژنل پبلک سکول کا دورہ کرتی ہے تو تعمیر کے لیے ، سہولیات کی فراہمی کے لیے اور سپورٹس کمپلیکس کی تعمیر کے لیے۔ افسر شاہی کی ان ترجیحات کے نتائج بھی واضح ہیں۔ جس سکول میں اشرافیہ کے بچے پڑھ رہے ہیں، افسر شاہی کی توجہ کا مرکز ہے، جہاں عام آدمی کے بچے پڑھ رہے ہیں ، بے توجہی کا شکار ہیں۔
کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک موثر، مضبوط اور مربوط لائحہ عمل درکار ہے۔ چند دن کی افراتفری، ہنگامہ خیزی، تشہیر اور سوشل میڈیا مہم سے شہرت تو مل سکتی ہے لیکن مسائل حل نہیں ہوسکتے۔





