Column

جہالت 

تحریر : علیشبا بگٹی
جب جہالت چیخ اٹھتی ہے، تو عقل خاموش رہتی ہے۔ ایک بار ایک گدھے نے کسی لومڑی سے کہا ’’  گھاس نیلی ہے‘‘ ۔ لومڑی نے جواب دیا ’’ نہیں، گھاس سبز ہے‘‘۔  بحث گرم ہوئی، دونوں نے اسے ثالثی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا، اور اس کے لیے وہ جنگل کے بادشاہ شیر کے سامنے گئے۔ شیر کے دربار میں پہنچنے سے پہلے، جہاں شیر اپنے تخت پر بیٹھا تھا، گدھا چیخنے لگا ’’ ہائز ہائنس، کیا یہ سچ نہیں کہ گھاس نیلی ہے؟ ‘‘۔  شیر نے جواب دیا ’’ سچ ہے، گھاس نیلی ہے‘‘۔ گدھے نے جلدی کی اور کہا ’’ لومڑی مجھ سے متفق نہیں ہے اور مخالفت کرتی ہے اور میرا مذاق اڑاتی ہے، براہ کرم اسے سزا دیں‘‘۔ بادشاہ نے پھر اعلان کیا ’’ لومڑی کو ایک ماہ کی خاموش رہنے کی سزا دی جائے گی‘‘۔ گدھا خوش دلی سے اچھل کر اپنے راستے پر چلا گیا، مطمئن اور دہراتا گیا’’  گھاس نیلی ہے‘‘۔۔۔ لومڑی نے اپنی سزا قبول کر لی، لیکن اس سے پہلے اس نے شیر سے پوچھا ’’ جناب، آپ نے مجھے سزا کیوں دی؟ آخر آپ بھی جانتے ہیں کہ گھاس ہری ہے‘‘۔ شیر نے جواب دیا ’’ یہ حقیقت ہے کہ گھاس سبز ہے‘‘۔  لومڑی نے پوچھا ’’ تو مجھے سزا کیوں دے رہے ہو؟ ‘‘، شیر نے جواب دیا ’’ اس کا اس سوال سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ گھاس نیلی ہے یا سبز۔ سزا اس لیے دی ہے کہ تم جیسی ذہین مخلوق کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ گدھے سے بحث کرکے وقت ضائع کرے اور اس کے اوپر آکر مجھے اور باقی رعایا کو اس سوال سے پریشان کرے‘‘ ۔ یاد رکھیے۔ وقت کا سب سے زیادہ ضیاع اس احمق اور جنونی، اور بیوقوف کے ساتھ بحث کرنا ہے، جسے سچ یا حقیقت کی پرواہ نہیں ہے، بلکہ صرف اپنے عقائد، شخصیت پرستی، ذہنی اختراع اور وہم کو اپنی فتح جانتا ہے۔ ایسے احمق پر اپنا وقت ضائع نہ کریں جن کا کوئی مطلب نہیں۔۔۔ جو جاہل ہیں۔
جہالت کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی قسم یہ ہی کہ آپ کے پاس علم نہیں ہے، آپ جانتے نہیں ہیں، آپ کے پاس ڈگریاں نہیں ہیں، آپ سکول نہیں گئے، آپ کتابیں نہیں پڑھتے، تو آپ جاہل ہیں۔
جہالت کی دوسری قسم بھی ہے جو انوکھی ہے، اس قسم کے جاہل ڈاکٹر، انجینئر، ماسٹر، گریجویٹ، صحافی، دانشور، ادیب تک کہلاتے ہیں۔ یہ ڈگریاں لیتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں اور یہاں تک کہ کتابیں لکھتے ہیں۔ اس قسم کی جہالت کو پکڑنا ذرا مشکل ہوتا ہے، لیکن اگر آپ اس قسم کے لوگوں کے ساتھ چند دن اٹھیں بیٹھیں تو آپ کو ایک خاص قسم کی ناگوار بو آنے لگتی ہے، یہ بو ان کے جسم سے نہیں آتی، نہ ہی ان کو بد بودار سانس کا مسئلہ ہوتا ہے، یہ بدبو ان کے ذہنوں سے آتی ہے، جن کو اکڑ اور انا نے جوہڑ بنا دیتا ہوتا ہے۔
 تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ
تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی
علم آپ میں عاجزی، اور شکر گزاری پیدا نہیں کر رہا، تو جان لیں کہ کہیں پہ کوئی نقص موجود ہے۔ عالم کی پہلی نشانی عاجزی ہے۔ عالم شخص کبھی اپنی علم پر اترائے گا نہیں۔ عالم کبھی یہ نہ سوچے گا، نہ کہے گا، نہ احساس دلائے گا کہ وہ آپ سے زیادہ جانتا ہے اور آپ سے بہتر ہے۔ ایک حقیقی عالم ہمیشہ سیکھنے کی جستجو میں ہوتا ہے، وہ انسان تو دور کی بات کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ کتوں سے بھی کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں۔
 جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا
وہی بیش و کم درس گاہوں میں تھا
 وہ کیا دیتا اختر کسی کو پناہ
جو خود عمر بھر بے پناہوں میں تھا
آج سے دو سو سال پہلے تک اتنی  ٹیکنالوجیز علم کی کمی کی وجہ سے  میسر نہ تھیں، جو کہ آج کے  انسان کو میسر ہیں۔ مگر موجودہ علم سے دور اُس دور کی دنیا کے ہر آدمی میں انسانیت ہوا کرتی تھی۔ اب تو موجودہ دور میں لوگوں کے نفسا نفسی کے حالات دیکھ کے ایسے لگتا ہے جیسے ہم کسی جاہلستان کے باسی ہیں۔ اور جہاں جہالت جیسے مہلک وائرس کا سامنا ہے۔
جاہلوںکی کمی نہیں جناب
 ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔۔
ویسے بھی جہاں اُستاد کو علم کا اور شاگرد کو اُستاد کا احترام نہ ہو، وہاں جہالت راج کرتی ہے۔ کسی نے کہا کہ جہالت گہری نیند کی طرح ہوتی ہے، جگانے والوں پر ہمیشہ غصہ آتا ہے۔
کب ڈوبے گا جہالت کا سفینہ
 سبھی رکھتے ہیں دھکاوے کا نگینہ
قرآن پاک میں ہدایت کی گئی ہے کہ زمیں پر تواضع یعنی تحمل اور آہستہ روی اختیار کی جائے اور اگر جاہلوں سے واسطہ پڑ جائے تو انہیں سلام کر کے اپنی راہ لی جائے۔
بے شک جہالت اس بحران کو کہتے ہیں جب علم ظلم کی مزاحمت سے انکار کر دیتا ہے۔ دنیا میں صرف آگاہی کو فضیلت حاصل ہے اور واحد گناہ جہالت ہے۔ آئن سٹائن نے کہا ہے کہ جہاں صرف جہالت ہی خوش رکھ سکتی ہو، وہاں عقل مند ہونا بیوقوفی ہے۔۔۔

جواب دیں

Back to top button