Column
قتل گاہوں میں رعایت نہیں برتی جاتی

تحریر : صفدر علی حیدری
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 44ہو گئی ہے ( غیر سرکاری ذرائع کے مطابق شہدا کی تعداد سو سے اوپر ہو چکی ہے ) جبکہ زخمیوں میں سے بھی 11افراد کی حالت نازک بتائی گئی ہے ۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں میں سے اکثریت کا تعلق اہلِ تشیع سے ہے۔ واقعے کے بعد علاقے کی فضا سوگوار ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اہل علاقہ اور لواحقین کے مطابق حملے کے وقت قافلے میں سفر کرنے والے چند مسافر اپنی جان بچانے کے لیے بھاگے تھے اور فی الحال یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ وہ کہاں ہیں اور کن حالات میں ہیں جبکہ چند شدید زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
علاقے میں کشیدگی ہے اور لوگ شدید غم و غصے کی حالت میں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس وقت پارہ چنار کی سڑکوں پر موجود ہیں ۔ ایک مقامی صحافی کہتے ہیں ’’ لوگ غصے اور غم کی حالت میں ہیں اور حالات کشیدہ ہیں۔ مقامی صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پارہ چنار کے علاقے میں اس وقت کئی مقامات پر موبائل انٹرنیٹ میں خلل ہے جبکہ کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔
پارہ چنار پاکستان کے قبائلی علاقے ضلع کرم کا دارالحکومت ہے۔ جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع ہے ۔ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے جو تمام قبائل ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا اور دل کش خوب صورت شہر ہے ۔ حمزہ خیل قبیلے کے پاڑے خیل شاخ کے ایک معتبر ملک تھے اور انہوں نے 200سال پہلے چنار کا یہ پودا لگایا تھا اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے۔ تقسیم یا سرسیم کے لحاظ سے یہ قدیم چنار کا درخت اور اس کے ارد گرد اراضی پاڑا خیل قبیلے کی ملکیت تھی ۔ سرکاری ریکارڈ یا کاغذاتِ مال میں اب بھی یہ ملکیت مستند ہے ۔ پاڑہ خیل اس صحرائی علاقے میں گندم کاشت کیا کرتے تھے۔ گندم کی کٹائی کے وقت یہاں خیمے لگاتے تھے اور اس چنار کے سائے میں جرگے ، صلاح مشورے یا دیگر امور جیسے مزری بانی ( مزری ٹکاول) انجام دیتے تھے۔ چنار کے پاس ان کے درمن ( کھلواڑ) ہوتے تھے، گندم حاصل کر کے واپس اپنے دیہات میں چلے جاتے تھے۔ پاڑہ ( پارہ ) چنار کا نام پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب انگریز فوج اپنے کیمپ سنگینہ اور طوری ملیشیا کے ہیڈکوارٹر کو بالش خیل سے تبدیل کر کے اس صحرا میں لائے ۔ اور طوری قبیلے نے یہ صحرا بغیر کسی قیمت کے طوری ملیشیا کے نام کر دیا ۔ طوری ملیشیا کا نام بعد میں تبدیل کر کے کرم ملیشیا رکھ دیا گیا کیونکہ اب طوریوں کے علاوہ، بنگش، منگل، بڈاخیل، مقبل اور دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل کر دئیے گئے تھے۔ ملانہ گائوں کے نیچے ایک وسیع و عریض صحرا تھا۔ اس صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درختوں کا باغ تھا اور مغربی حصے میں ایک پرانا چنار کا درخت۔ توتکئی نام پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ جو صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درخت تھے، جو باغ کی شکل اختیار کر چکے تھے، ان کو لوگ توتکئی کے نام سے جانتے تھے۔ انگریز حکومت نے بعد میں اس باغ کو وسیع کر کے ایگریکلچر یونٹ بنایا اور توت سے ریشم بانی شروع کی جب کہ لوگ اب بھی اس حصے کو توتانو باغ ہی کہتے ہیں ۔ چوں کہ یہ چنار انگریزوں کے قائم کردہ دفاتر اور کرم ملیشیا کے بالکل درمیان موجود تھا اور وادی کرم کے دور دراز علاقوں سے لوگ آ کر اکثر یہیں جمع ہوتے تھے تو توتکئی کی جگہ پاڑہ چنار نام مشہور ہونا شروع ہوئی اور یوں توتکئی بازار پاڑہ چنار کہلانے لگا۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطراف سے افغانستان جب کہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں پیرٹس بیک یعنی طوطے کی چونچ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
آج وہاں ایک بار پھر سے کچھ معصوم جنگلی بھیڑیوں کا شکار ہوئے۔ آج پھر سے کچھ بچے باپ کی شفقت سے محروم ہوئے کچھ ماں کی ممتا سے ۔ آج پھر سے کسی بہن نے اپنے محافظ بھائی کی لاش پر ماتم کیا۔ آج پھر کسی بھائی نے اپنی بہن کی ڈولی کی بجائے اس کے جنازے کا بوجھ اٹھایا۔ آج پھر سے نئی نویلی دلہن دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھے ہوئے اپنے دلہے کا انتظار کر رہی تھی مگر اس کی موت کی خبر نے اس انتظار کو ہمیشہ کے لئے اس کا مقدر بنا دیا ۔ایک نوجوان کئی سال بعد وطن لوٹا تو اس کا استقبال گولیوں سے کیا گیا۔ آج پھر پھولوں کی معصوم کلیوں کو زخموں سے چور چور کیا گیا۔ آج پھر بے گناہ اور بے قصور معصوموں کے لہو سے ہولی کھیلی گئی۔
روزِ محشر ، بارگاہِ خداوندی میں یہ مظلوم چیخ چیخ کر فریاد کرے گے کہ اے اللہ! ہمارے قاتل صرف وہی لوگ نہیں جنہوں نے سرِ عام قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا بلکہ وہ تمام لوگ ہمارے قاتلین میں سے ہیں جنہوں تماشائی بن کر ہماری موت کا تماشا دیکھا اور زبان سے ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں ایک جملہ تک ادا نہیں کیا ۔
قیامت کے دن کوئی بچہ ندا دے گا ’’ مجھ کس جرم میں مارا گیا ۔ میرا قصور کیا تھا ؟‘‘۔
قیامت کی ایک نشانی یہ بھی تو بتائی گئی ہے کہ نہ مرنے والے کو پتہ ہو گا کہ وہ قتل کیوں ہوا اور نہ قاتل یہ جانتا ہو گا کہ اس قتل کیوں کیا ۔
یہ حالیہ کچھ عرصے کا سب سے بڑا سانحہ تھا مگر اس کی قومی میڈیا پر کوریج نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اوپر سے حکم ملا ہے کہ اس کو زیادہ نشر نہ کیا جائے۔ وسیم بادامی نے کتنے دکھ بھری لہجے میں اطلاع دی کہ دو سال سے زائد وہ روڈ بند رہی جو اس بد قسمت علاقے کو پاکستان سے ملاتی ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان آنے کے لیے خطے کے لوگوں کو افغانستان جانا پڑتا تھا۔
آخر ایسا کیوں ہے کہ وہاں سے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں آتی۔ کیا وہ خطہ پاکستان کا حصہ نہیں ؟ کیا وہاں کے عوام پاکستانی نہیں ؟ کیا وہاں کے لوگوں کو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ؟ آخر ان کو فرقہ واریت کی بھٹی میں کیوں جھونکا جا رہا ہے ؟ آخر اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اس خطے اور اس کے عوام کو فرقہ پرست جنونیوں کے حوالے کیوں کر دیا گیا ہے ؟ ہمارا میڈیا اس علاقے کے مسائل کے حل کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔
یہ کیسی دو عملی ہے، کیسی منافقت ہے ؟
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا ؟
ایک بچے کا فیڈر دیکھ کر دل کو دھکا سا لگا۔ اندر دودھ تھا، باہر خون ۔
اور وہ ہیں کہ کہتے ہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ سب کیسے ہو گیا
شاعر نے کہا تھا
قتل گاہوں میں رعایت نہیں برتی جاتی
کوئی اکبر ہو کہ اصغر نہیں دیکھا جاتا





