Columnمحمد مبشر انوار

فائنل کال  

تحریر : محمد مبشر انوار (ریاض)
عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، بحرانوں کی سرزمین پاکستان پر امید کی ایک کرن پھوٹی تھی جب حکمرانوں اور قیدی نمبر 804کے درمیان مذاکرات کی سیج سجنے کا اعلان ہوا تھا لیکن اس امید کی حالت بعینہ بن کھلے مرجھانے والے پھول کی ہوئی کہ ریاست جس کی بنیادی ذمہ داری امن و امان اور حقوق کی ضمانت ہے، نے پر اعتماد فضا بننے سے پہلے ہی اپنے ارادے ظاہر کر دئیے۔ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کے لئے جو تین شرائط رکھی گئی، ان میں سے ایک شرط واقعتا ایسی تھی کہ جس پر فوری عمل ہو سکتا تھا اور فریقین کو ان مذاکرات کی سنجیدگی پر اعتماد ہو سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے میز سجنے سے قبل ہی الٹ دی گئی ۔ تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کو مذاکرات کا اختیار سونپا گیا تاہم آخری و قطعی فیصلہ عمران خان کی منظوری سے مشروط ہے، اور اس وقت عمران خان سخت ترین جیل جھیلنے کے بعد یقینی طور پر رہا ہوکر بذات خود معاملات کو نپٹانا چاہتے ہیں، اس غرض سے ان کا جیل سے نکلنا اولین ترجیح ہے لیکن کیا حکومت یا مقتدرہ کے لئے بھی یہ اتنا ضروری ہے یا ابھی عمران خان کو مزید جیل میں رکھنا ان کے مفاد میں ہے؟ یہ بات اس وقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان کو جیل میں رکھ کر اس کے صبر کا مزید امتحان لییا جانا مقصود ہے یا دوسرے الفاظ میں عمران خان کی قوت ارادی کو توڑنا، ان کو سرنگوں کرنا، گھٹنوں پر لانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ جس عوامی حمایت کے گھوڑے پر اس وقت عمران خان سوار ہیں، رہا ہونے کے بعد،ان کا طرز عمل کیا ہوگا، کسی کو بھی اس کا یقین نہیں ہے ۔ گو کہ عمران خان اس کا اعادہ کر چکے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد ذاتی انتقام سے گریز کریں گے لیکن ریاستی بہتری اور نظام کو مربوط بنانے کے لئے وہ متعلقہ اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی ضرور کریں گے تا کہ مستقبل میں کوئی بھی ریاستی اہلکار غیر قانونی کارروائیوں سے گریز کرے۔ بالفرض اس وقت عمران خان اپنے اس موقف سے بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو اس امر کی کیا ضمانت ہیں کہ مستقبل میں ریاستی مشینری، غیر قانونی اقدامات سے گریز نہیں کرے گی اور صرف ریاست کی وفادار رہے گی؟ جب تک ریاستی مشینری ریاست کی وفادار نہیں ہوگی، یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے ؟ اس کے برعکس اگر ریاستی مشینری کا عمل یونہی جاری رہتا ہے تو یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو گا کہ جرائم پیشہ افراد اور ملکی وسائل لوٹنے والوں کا محاسبہ ہو سکے؟ ریاست اس وقت اسی مخمصے کا شکار ہے اور کسی بھی صورت نہیں چاہتی کہ عمران خان یا تحریک انصاف اپنے زور بازو پر اقتدار کا حصہ بن جائے کہ اپنے زور بازو پر اقتدار میں آتے ہی، عمران خان ایک مرتبہ محاسبہ ضرور کریں گے لہذا یہ ضروری ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل کچھ یقین دہانیاں حاصل کر لی جائیں۔ بہرطور عمران خان ایسی یقین دہانیاں کروانے کے لئے تیار نظر نہیں آتے کہ اس صورت میں عمران خان کے بنیادی موقف کو سخت ٹھیس پہنچنے کا امکان ہے اور عمران خان کی ساکھ بھی بعینہ دیگر ہم عصر سیاستدانوں سے مختلف نہیں رہے گی۔
بہرکیف ریاست ، جو ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے، اگر خود فریق بن جائے، تو ریاست کی اپنی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے، یہی صورتحال اس وقت بدقسمتی سے ریاست پاکستان کی ہے کہ اندرون پاکستان گو کہ ریاست نے اپنا شکنجہ سختی سے کسا ہوا ہے لیکن عالمی سطح پر ریاست کا تاثر بری طرح مجروح ہو رہا ہے کہ عالمی طاقت میں اقتدار میں تبدیلی نے خاموشیوں کو زبان دے دی ہے اور ہر قابل ذکر ریاست، عمران خان کے انسانی حقوق سلب کئے جانے پر آواز اٹھا رہی ہے۔ یہ وہ عالمی دبائو ہے جو بہرطور پچھلے اڑھائی سال سے زیر زمین رہا ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس پر لب کشائی کی اجازت نہیں تھی لیکن اب ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ،یہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور پاکستان کے لئے اس دبائو کو بوجوہ برداشت کرنا مشکل ہو گا۔ اندرونی محاذ پر تحریک انصاف کے کئی ایک چہروں کے متعلق یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور جو آسائشیں انہیں تحریک انصاف کی بدولت، عمران خان کی ساکھ کے بدلے مل رہی ہیں، وہ عمران خان کی رہائی کے بعد ممکن نہیں لہذا ان کی یہ کوششیں ہیں کہ کسی طرح عمران خان سمجھوتہ کر لیں، اس لئے ان کی ہمدردیاں پس پردہ ریاست کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔
ریاست اگر فریق نہ ہوتی تو اڑھائی برس میں جو کچھ ہو چکا، جو ظلم و ستم و ناانصافی، چادر و چادر یواری کے تقدس کی پامالی، انسانی حقوق کا سلب کیا جانا، عوامی رائے کے برعکس انتخابی نتائج کا اعلان اور قبل از انتخاب ایک سیاسی جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک، رواں ہفتے بامقصد و معنی مذاکرات کے نتیجہ میں، اس کا تدارک بخوبی کر سکتی تھی لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ وطن عزیز میں ہر بااختیار اپنے تئیں ریاست پاکستان کے ساتھ مخلص ہونے کی گردان دہراتے نہیں تھکتا لیکن جب وقت آتا ہے تو ذاتی مفادات کے سامنے ڈھیر ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متاثرہ فریق، جو گزشتہ اڑھائی برس سے ظلم و ستم پر نوحہ کناں ہے، اس کے مطالبات پر غیر جانبدار ہو کر مذاکرات کی میز سجائی جاتی اور اس کے مطالبات کے عین مطابق معاملات بروئے کار لاکر اسے انصاف دیا جاتا، تا کہ ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری عملا ثابت کی جاتی لیکن مذاکرات سے قبل ہی، ہائیکورٹ سے رہائی کے احکامات دئیے جانے کے باوجود، مزید دبائو کے لئے ایک اور مقدمہ درج کر کے قید ہی رکھا گیا ہے۔ ایک واضح پیغام ہے کہ جب تک ہماری شرائط کو تسلیم نہیں کیا جاتا، ہمارے منصوبہ کو قبول نہیں کیا جاتا، مقبولیت کسی کھاتے میں نہیں اور ہمیں ایسی مقبولیت سے کوئی سروکار نہیں کہ اس ملک میں قانون ’’ ہم ‘‘ ہیں اور جو ہم چاہیں گے، وہی ہو گا۔
اس پس منظر میں تحریک انصاف کے پاس کیا رہ جاتا ہے سوائے اعلان کردہ احتجاج کے، جس کی خلاف اسلام آباد کے تاجروں کی جانب سے دائر کردہ ہائی کورٹ میں درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے فوری طور پر جو فیصلہ سنایا ہے، اس کے مطابق انتظامیہ کو امن و امان برقرار رکھنے کے لئے تمام تر اقدامات اٹھانے کی اجازت دی ہے تو دوسری طرف مظاہرین کو احتجاج کرنے کے لئے متعلقہ اداروں سے ضروری اجازت نامہ حاصل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انتظامیہ اس فیصلے سے قبل ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی بڑی تعداد اسلام آباد میں تعینات کر چکی ہے جبکہ ہزار کے قریب کنٹینروں سے اسلام آباد کو بند کئے جانے کی اطلاعات بھی میڈیا دے رہا ہے۔ ان انتظامات کے علاوہ اٹک پل اور 26نمبر چونگی پر اہلکاروں کی غیر معمولی تعداد میں تعیناتی، اس امر کی غماز ہے کہ انتظامیہ اس احتجاج کو پوری قوت سے کچلنے کے لئے بروئے کار آنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو یقینی طور پر تصادم کی راہ ہے کہ اس مرتبہ احتجاج کی قیادت علی امین گنڈا پور نہیں کر رہے، جو ماضی میں دو مرتبہ احتجاجی کال کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔ اس مرتبہ احتجاج کی قیادت گو کہ ایک کمیٹی کر رہی ہے لیکن تاحال صورتحال اس امر کی غماضی کر رہی ہے کہ درپردہ اس احتجاج کی کال بہرطور عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی بذات خود کرتی دکھائی دیں گی۔ اس حوالے سے کا رات بشری بی بی کا ایک ویڈیو پیغام بھی منظر عام آ چکا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر عندیہ دیا ہے کہ اس احتجاج کو ختم کرنے کا اختیار کسی بھی پارٹی رہنما کے پاس نہیں بلکہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بانی تحریک انصاف خود جیل سے رہا ہو کر، اسے ختم کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔ اپنے اسی پیغام میں بشری بی بی نے رجیم چینج کے حوالے سے جو انکشاف کیا ہے، وہ بھی انتہائی حیران کن ہے تاہم اس کی حقیقت سے بھی انکار نہیں لیکن کسی پاکستانی کا اس کے متعلق یوں اعلان بھی قطعی مناسب نہیں۔ تحریک انصاف کے مخالفین یہ سمجھ رہے ہیں کہ بشریٰ بی بی کی اس غلطی سے انہیں بیانیہ مل جائے گا، تو میرے خیال میں بشری بی بی کا یہ بیان اتنا اہم نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر اسے پیش کیا جارہا ہے، کہ ایسے بیانات سے نہ تو ریاستوں کے درمیان تعلقات پر اثر ہوتا ہے اور نہ ہی ریاستیں اپنے لائحہ عمل و منصوبوں سے پیچھے ہٹتی ہیں۔ تحریک انصاف مخالفین کی عوام میں عدم پذیرائی ایسے بیانات سے تبدیل نہیں ہو سکتی، البتہ خوش گمانی ہر کسی کا حق ہے۔ اس پس منظر میں آج اسلام آباد میں میدان سجے گا یا نہیں، اس کا انحصار فریقین پر ہے کہ آیا وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیسے کرتے ہیں، اگر تحریک انصاف متوقع تعداد میں مظاہرین سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی تو انتظامیہ اس احتجاج سے بآسانی نپٹ لے گی اور اگر تحریک انصاف واقعتا عوام کو سڑکوں اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اسلام آباد پر لانے میں کامیاب ہو گئی تو انتظامیہ اس احتجاج کو روکے گی یا خود کو الگ کر لے گی؟ بالفرض عمران خان کی فائنل کال پر عوامی سمندر سب رکاوٹیں توڑ کر اسلام آباد پہنچ جائے اور انتظامیہ کے ساتھ الجھ کر، امن و امان کی سخت صورتحال پیدا ہو جائے تو کیا ریاست عمران خان کو رہا کرے گی یا معاملات کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لے گی، خواہ عالمی حالات اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، بہرکیف آج اس فائنل کال کا نتیجہ سامنے آ ہی جائیگا۔

جواب دیں

Back to top button