Column

دھرنوں کی سیاست ختم کریں !

تحریر: یاورعباس
24نومبر کو ( کل ) ایک بار پھر ملک میں احتجاجی سیاست کا بڑا دن ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد میں احتجاج کی کال دے دی ہے ، حکومت ایک بار پھر ہڑتال کو ناکام بنانے کے لیے جی ٹی روڈ ، موٹر وے پر کنٹینرز لگانے ، دفعہ 44نافذ کرنے اور احتجاجی مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے لیے تیاریاں پکڑ رہی ہے ۔ ایک دن کی ہڑتال کے اعلان کے نتیجہ میں تقریباً ایک ہفتہ تک ملک میں ٹریفک جام رہے گی ، لوگوں کو سفری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا، مریضوں کو ہسپتالوں میں جانے کے لیے تکلیف برداشت کرنا پڑے گی ، بیرون ملک آنے جانے والے مسافروں کو بھی شدید پریشانی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ریاستی عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج طلب کرنا پڑے گی ، تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوںگی اور اس جیسے بے شمار واقعات جو ہم دیکھیں گے وہ پہلی بار نہیں دیکھیں گے بلکہ گزشتہ 10برس سے تقریباً تواتر سے دیکھ رہے ہیں اور بھگت رہے ہیں اور گزشتہ دس برسوں سے ملک کتنا مقروض ہوچکا ، کتنے ادارے، کتنے اثاثے ہم نے آئی ایم ایف کے آگے گروی کر دئیے، نجکاری کے نام پر ہم کتنے کنگال ہوگئے اس کا کوئی اندازا بھی نہیں لگا رہا، تعلیم ، صحت کے شعبہ میں ہمارا گراف کتنا نیچے گر گیا ، غربت ،مہنگائی اور بیروزگاری کہاں تک پہنچ گئی مگر ابھی تک ہم دھرنوں کو کچلنے کے لیے حکمت عملیاں مرتب کررہے ہیں مگر دھرنوں کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کررہے ، اگر ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے، عوام کے ووٹ کی طاقت سے ایک حکومت قائم کردی جائے ، نظام انصاف کو بہتر بنادیا جائے ، اداروں کو قانون کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور بے جا ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کی جائے تو شاید دھرنوں کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے ۔
دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کامیابی کی سب سے بڑی وجہ امن اور لوگوںکا اتفاق واتحاد اور قومی سوچ ہوتی ہے ۔ قومی سوچ اور امن و امان کے بغیر ترقی اور خوشحالی محض خواب یا خوش فہمی ہی ہوسکتی ہے ۔ پاکستان جس معاشی ، سیاسی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے قومی سوچ، امن ، یکجہتی اور انصاف کی ضرورت ہے ۔ قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد کا مطالعہ کریںتو پتہ چلتا ہے کہ آزادی کا نظریہ محض دو قومی نظریہ ہی نہیں تھا بلکہ اس خطہ کے مسلمانوں کو امن ، انصاف ، اخوت ، مساوات ، رواداری جیسے سنہری اصولوں کی عملی تصویر پیش کرنا تھی دنیا کو دکھانا تھا کہ خوشحالی محض چند خاندانوں کا حق نہیں بلکہ بلاتفریق تمام لوگوںکا معیار زندگی بلند کرنا ، غربت کا خاتمہ ، انصاف کی سستی اور فوری فراہمی تھی بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہی یہاں کا سیاسی نظام مضبوط نہ ہوسکا اور آمریت نے پنجے گاڑنا شروع کردئیے ،آزادی کا نصف عرصہ مارشل لاء ادوار میں گزر گیا ، بچا کھچا جمہوری دور بھی آمریت کی چھتری تلے ہی سانس لیتا رہا ، جس کی وجہ سے حقیقی معنوں میں جمہوریت یہاں پنپ نہ سکی۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ سے عوام کی بجائے کہیں اور سے سیاستدانوں کو حمایت لینا مقصود رہی۔ عوام کے ووٹوں کی قدر تو تب ہوگی جب پارلیمنٹ میں جانے کے لیے لوگوں کے ووٹوں کی اہمیت ہوگی اور جب تک ووٹ کو اہمیت نہ دی جائے گی ، دھرنے بھی چلتے رہیں گے اور ملک معاشی وسیاسی دلدل میں دھنستا جائے گا، امن قائم ہوگا نہ ہی ترقی کا خواب پورا ہوسکے گا۔
2014ء کے دھرنوں سے قبل پاکستان پر اشرافیہ نے جس طرح ملک کو آئی ایم ایف کے شکنجوں میں پھنسایا اس کا عوامی کو حقیقی ادراک نہ تھا ،حکمران ، اشرافیہ طبقہ قرضوں کی مد میں اربوں ڈالرز وصول کر کے قوم کو مقروض کرتے رہے اور بیرون ملک جائیدادیں بناتے رہے ، تھوڑے بہت ترقیاتی کام کروا کے ، مہنگائی کا جن بوتل سے باہر نکال کر پھر مہنگائی پر قابوپانے کی ڈرامہ بازیاں ، لوڈ شیڈنگ کے ذریعے عوام کو عذاب میں مبتلا کر کے پھر لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کا کریڈٹ لینے جیسے ڈرامے ہوتے رہے مگر حقیقت میں ہر طرح سے عوام کا خون نچوڑا جاتا رہا اور کمال ہوشیاری یہ تھی کہ عوام کو تکلیف کا احساس بھی نہ ہونے دیا جاتا۔ عوام کچھ حد تک سادہ لوح تھے جو ہر انتخابات کے موقع پر سیاستدانوں کے سبز باغ دکھانے پر ان کے وعدوں پر یقین کرلیتے اور انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ بیٹھتے پھر کبھی فوج اقتدار میں آجاتی تو بھی سیاستدانوں سے تنگ آئے عوام مٹھائیاں بانٹتے نظر آتے کہ اب ملک کی تقدیر بدل جائے گی مگر ایسا ہوا کچھ نہیں ۔ 2014ء کے دھرنوں کو 10سال گزر گئے ہیں ان 10سالوں میں عوام کو جو شعور ملا ہے شاید وہ گزشتہ 70برس میں نہ ملا ہو۔ انتخابات کی حقیقت کھل کر آشکار ہوگئی کہ پارلیمنٹ میں لوگ کیسے پہنچتے ہیں ، اسمبلیاں کیسے بنتی اور توڑی جاتی ہیں ، قانون سازیاں کیسے ہوتی ہیں اور اقتدار کیسے ملتا ہے ۔
40برس تک اقتدار میں رہنے والی جماعتیں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور ان جیسی چھوٹی موٹی بے شمار جماعتیں عوام میں اس قدر بے وقعت ہوجائیں گی کبھی ان کے لیڈران نے خود بھی شاید نہ سوچا ہو، کہ تمام مخالف جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوکر بھی عوام کو کوئی بیانیہ نہ دے سکیں اور نہ ہی کوئی ہمدردی حاصل کر سکیں ، مہنگائی سے ریلیف کے لیے احتجاجی مارچ کرنے والی جماعتوںکو اقتدار ملا تو انہوںنے تاریخ ساز مہنگائی کر دی بلکہ مہنگائی کرنے کے 70سالہ ریکارڈ توڑ دئیے ، اقتدار کی نورا کشتی میں عوام کا کیا حشر ہورہا ہے شاید اس کی فکر کسی کو بھی نہیں ۔ جس ملک سے نوجوان طبقہ ، پڑھے لکھے اور کاروباری لوگ ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہوں ، سیاستدانوں کا سرمایہ اور ان کے بچوں کے کاروبار بیرون ملک ہوں وہاں معیشت خاک بہتر ہونی ہے ۔ مہنگائی اوربے تحاشا ٹیکسوں کے ذریعے عوام کی جیبوں پر روز ڈاکے مارنے سے معیشت بہتر نہیں ہوتی بلکہ اداروں کی مضبوطی، انصاف کی فراہمی ، امن و امان کے قیام، عوام کو ریلیف دینے اور روزگار کے ذرائع پیدا کرنے سے خوشحالی آتی ہے ۔ ظلم اور جبر کے ذریعے حکومتیں کی جا سکتی ہیں مگر ملک کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی ۔ احتجاج جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر جس ملک میں لوگوں کو انصاف مل رہا ہو، ریاست عوام کی پہلی ترجیح عوام کی فلاح و بہبود، آزادی ہو، ریاستی ادارے عوامی خوشحالی اور ترقی کے لیے کام کر رہے ہوں وہاں شاید احتجاج کی بھی ضرورت نہیں پڑتی دھرنے تو بہت دور کی بات ہے، پاکستان میں اگر ہم حقیقی معنوں میں خوشحالی دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کو نفرت ، ضد ، تعصب اور ہٹ دھرمی چھوڑ نی ہوگی پھر دھرنوں کی سیاست بھی ختم ہوسکتی ہے ۔

جواب دیں

Back to top button