کبھی کوئی آپریشن بلوچستان کو حق دلانے کیلئے بھی کریں؟

عبدالرزاق برق
ملک کا سب سے بڑا پس ماندہ اور امن و امان کے لحاظ سے ہمیشہ ایک مسئلہ رکھنے والے صوبہ بلوچستان میں حکومت پاکستان کے اعلیٰ ترین سکیورٹی فورم نے موجودہ دور میں پہلی بار فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ گزشتہ دنوں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونیوالے اجلاس میں کیا۔ اجلاس میں اعلیٰ عسکری قیادت کے بشمول متعلقہ وفاقی وزراء سمیت صوبائی وزرا اعلیٰ اور انٹلی جنس اداروں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے متعلق دوٹوک فیصلے کئے گئے۔ کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کیخلاف آپریشن کی منظوری دی۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا پاکستان کی انسداد دہشت گردی مہم کو دوبارہ فعال یا متحرک کرنے پر مرکوز تھا۔ کمیٹی نے کثیر جہتی چیلنجوں سے موثر طریقے سے نمٹنے کیلئے ایک متحد سیاسی آواز اور اسے مربوط بنانے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ حکومت پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں موجودہ حکومت نے پہلی بار صوبے میں شروع کرنیوالے آپریشن کے بارے میں مختلف سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔ کیا بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے کیلئے ایک آپریشن کی ضرورت ہے؟ کیا بلوچستان میں آپریشن شروع کرنے سے صوبے میں امن آجائے گا؟ یا اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپریشن کرنے کے بعد مکمل امن و امان قائم ہو جائیگا اور پھر صوبے کے دور دراز علاقوں میں بے گناہ پنجابی مزدور نہیں مریں گے یا نہیں مارے جائیں گے؟ اور صوبے کے پشتون علاقوں میں کوئلے سے لدے ٹرکوں سے ریاستی اہلکاروں کی موجودگی میں کوئی بھی نان اسٹیٹ ایکٹر بھتہ نہیں لیں گے اور کوئلے کے لدے ہوئے ٹرکوں کو نہیں جلائیں گے؟ کیونکہ بلوچستان میں کئے گئے آپریشن کے بارے میں تاریخ یہ کہتی ہے کہ جتنے بھی آپریشن ماضی میں ہوچکے ہیں کسی بھی آپریشن کے نتیجے میں کوئی امن قائم نہیں ہوا؟ نہ کسی کو یقین ہے اس آپریشن کا کوئی نتیجہ نکلے گا یا نہیں کیونکہ بدنیتی کی جڑیں پسماندہ معاشرے میں گہری ہیں مگر کئی سال سے جو بھی آپریشن ہوئے یا ہورہے ہیں ان کا حاصل وصول کچھ بھی نہیں اور نہ ہی کسی بھی آپریشن کا نتیجہ آج تک سامنے آیا ہے۔ آپریشن شروع تو کئے جاتے ہیں لیکن ابھی تک نہیں سنا کہ پایہ تکمیل تک پہنچ گئے، حالانکہ سب سے زیادہ پیسہ سکیورٹی پر خرچ ہوتا ہے لیکن ملک کے اندر کوئی بھی محفوظ نہیں۔ آئے روز خودکش دھماکے ہوتے رہتے ہیں، جہاں قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں، بلوچستان میں کئے گئے آپریشن کے حوالے سے تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ آپریشن کرنے سے سوائے نفرت کو اشتعال میں بدلنے کے کچھ نہیں ہوسکا اور بلوچ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو خودکش حملہ آوروں میں بدلنے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔ بلوچ ایریا میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں لیکن آج تک تحقیقات نہیں ہوسکی، ایک حامد میر نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی لیکن اسے بھی بدلے میں پانچ گولیاں کھانی پڑیں، دہشت گردی کی تو کچھ سال پہلے کمر توڑ دی گئی تھی، آخر دہشت گردی کی یہ کمر کس طرح دوبارہ جڑ جاتی ہے؟ اس دہشت گردی کے جاری رہنے کے بارے میں حکومت پاکستان اور دنیا کے آزاد ذرائع کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے ہمسایہ ریاستیں ہیں، بلوچستان میں عسکریت پسند عناصر کئی طرح عام لوگوں کو بہکاتے ہیں، وہ بائیں بازو کی فکر کو آزادی کہتے ہیں اور ریاست کو قابض کہتے ہیں، وہ نسلی تعصب کو ابھارتے ہیں، وہ بلوچستان کی محرومیوں کو اپنی مذموم کارروائیوں کیلئے ایندھن بناتے ہیں، اب اگر اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا تو اس کی لپیٹ میں عام شہری کے آنے سے کیا کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آئے گا؟ کیا پاکستان کسی بھی فوجی آپریشن شروع کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ کیا بلوچستان کا واحد مسئلہ آج صرف اور صرف فوجی آپریشن کے ذریعے حل کرنا ہے یا بلوچستان کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے؟ اگر آپریشن سے مسئلے حل ہوتے تو نیٹو اور دنیا کی ایک سپرپاور امریکہ کی فوج بیس سال سے افغانستان میں آپریشن کر رہی تھی لیکن ناکام ہوئی تھی اور سپرپاور ملک نے گزشتہ بیس سال میں ایک ٹریلین ڈالر بھی لگائے مگر افغانستان میں کوئی امن نہیں لا سکا۔ اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی ریاستی اہلکاروں کی جانب سے گزشتہ بیس سال سے مختلف ناموں سے آپریشن کئے گئے لیکن حالات عوام کے سامنے خراب ہوئے بہتر نہیں ہوئے اور ساتھ ہی اس آپریشن سے وہاں کیا ملا؟ سوائے گھروں سے سامان لوٹنے کے، اور لاکھوں لوگ اپنے ہی صوبے میں بے گھر اور مہاجر بن گئے اور ہزاروں بے گناہ لوگ اس بے نتیجہ جنگ کا ایندھن بنے۔ اب بھی خون ریزی ہوگی۔ خون بہے گا، جانیں جائیں گی اور اس آپریشن کی لپیٹ میں کئی مائوں کے لخت جگر لقمہ اجل بنیں گے اور جو پہاڑوں میں ہیں وہ کفن سر پر باندھ کر نکلیں گے اور آخری سانس تک لڑیں گے کیونکہ قبائل کو جتنا دبائو گے وہ اتنا ہی ابھریں گے۔ کیا دہشت گردی اللہ کی طرف سے نازل کردہ کوئی آفت ہے یا کسی کا ذریعہ معاش؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اندرونی مسائل فوجی آپریشن، مار کٹائی سے حل کرنے میں تلاش کئے جاتے ہیں جبکہ انڈیا کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل باہمی مذاکرات میں تلاش کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ اس ملک سے دہشت گردی، بدامنی کا عفریت ختم نہیں ہوتا اور ان آپریشنوں سے آج تک یہ دہشت گردی ختم ہوئی نہ امن ہی اس ملک میں آیا ہے، جہاں قدرتی وسائل ہیں وہاں سکیورٹی کے مسائل ہیں، جہاں وسائل ہیں وہاں دہشت گردی ہے، جہاں وسائل استعمال ہوتے ہیں وہاں سکون ہے، وہاں تعلیم ہے، صحت ہے، وزیرستان سے اربوں روپے کی معدنیات لے گیا، اس کا کوئی آڈٹ نہیں کیا گیا، ہزاروں ٹرک معدنیات کے نکالے گئے، کوئی ٹرک دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنتا، وہاں کے لوگ نشانہ بنتے ہیں، بلوچستان میں آپریشن شروع کرنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب بلوچستان میں یکے بعد دیگرے تشدد کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے صوبے کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ صوبے میں فوجی ایکشن ہی تشدد پر آمادہ گروہوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے اور امن قائم ہوسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایپکس کمیٹی نے اب وزیراعلیٰ کی خواہش پوری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، البتہ اعلامیے میں بتائے گئے نکات میں واضح نہیں ہوسکا کہ اس بار فوجی ایکشن سے ایسے کون سے نتائج حاصل ہوسکیں گے جو اس سے پہلے حاصل نہیں ہوئے، کسی بھی تنازع کے حل کیلئے فوجی کارروائی کے ساتھ ہی سیاسی منصوبہ بھی کسی حکومت کے پیش نظر ہونا چاہئے، کسی علاقے میں تشدد ختم کرنے کیلئے ان وجوہات کو دور کرنا اہم ہوتا ہے جن کی وجہ سے خاص علاقے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، ان تمام مسائل کا حل سیاسی سطح پر تلاش کیا جاسکتا تھا لیکن سیاسی ادارے اقتدار حاصل کرنے کے سوائے اپنی کسی ذمہ داری کو نبھانے پر آمادہ نہیں اور ساتھ ہی انسداد دہشت گردی کے اقدامات اس لئے بھی غیر موثر ہوتے رہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور متعلقہ اداروں، وزارتوں کے درمیان تعاون بہتر نہیں رہ سکا۔ ایپکس کمیٹی کی جانب فوجی آپریشن کے فیصلے پر اتفاق سے امن کی بحالی کی امید رکھی جاسکتی ہے تاہم یہ امر پیش نظر رہے کہ فوجی آپریشن کے دوران پیدا ہونیوالے کچھ مسائل سیاسی و انتظامی سطح پر حل کئے جاتے ہیں، کیا سیاسی قیادت یہ ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے؟2005 میں پرویز مشرف نے بھی آپریشن کیا تھا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ مشرف کہتا تھا کہ یہ ڈیڑھ تحصیل کا مسئلہ ہے اور پھر بعد میں جو کچھ ہوا وہ آج بھی جاری ہے، مگر بلوچستان کا مسئلہ سیاسی مسئلہ ہے، آپریشن سے حل نہیں ہوگا، یہ اس لئے کہ ملک میں کیا پنجابی، کیا پشتون، کیا سندھی، کیا بلوچ سب ان آپریشنوں سے تنگ اور بیزار ہوچکے ہیں۔ اگر 75سال سے چلتے ہوئے آپریشنوں سے امن نہیں آ سکا تو ضرور ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ بلوچ اپنے ساحل اور وسائل کے مالک ہیں، اگر ریاست نے یہ بات تسلیم کرلی تو پھر بلوچستان کا مسئلہ اسی دن حل ہو جائیگا، یہ جو آج فیصلے کر رہے ہو یہ فیصلے پہلے دن سے ہی کرنا چاہئیں تھے، جب تک ملک میں امن و امان کا قیام یقینی نہیں بنے گا اس ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں آئے گی، نہ یہ ملک ترقی کر سکتا ہے، یہ دن بدن تنزلی کا شکار ہوگا، میرے خیال میں بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کئے جارہے ہیں، اپنی پالیسیاں تشکیل دی جائیں اور انہیں تبدیل کیا جائے، بلوچوں کو حقوق دیئے جائیں، سیاست دانوں کے دماغ میں بھوسا بھرا ہوا ہے، وہ خون کو خون سے دھونے کی کوشش کر رہے ہیں، مذاکرات واحد حل ہے، بلوچستان کے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جائے پھر امن قائم ہو جائے گا، پورے بلوچستان کے گھروں، دکانوں کو گیس کی سپلائی شروع کی جائے آدھے مسئلے خود حل ہو جائیں گے، نوجوانوں کو ایران اور افغانستان سے تجارت کرنے کی اجازت دی جائے روزگار نوجوانوں کو راہ راست پر لے آئے گا، ایک بار بلوچستان کو جائز آئینی حقوق دے کر اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار بند کرکے دیکھ لیں کسی بھی آپریشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔ محروم علاقوں کے افلاس زدہ طبقات کو ریاست کا دست و بازو ہونا چاہئے، بلوچستان کے معاملات میں بیرونی مداخلتوں کا حقیقی اور دیرپا حل حکومت پاکستان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، طاقت کے بھرپور استعمال کرنے سے پہلے گہرائی اور خلوص سے صورتحال کا مطالعہ کیا جائے، سب سے پہلے بلوچستان کو باقی صوبوں کے برابر لانے کیلئے تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر کرنا ہوگا، معاشی، سماجی تفاوتوں اور سرداروں، نوابوں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کی جانب سے ناقابل تسخیر اختیارات کے بے دریغ اور بے جا استعمال کو ختم کرنا ہوگا اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانا ہوگا، مقامی وسائل سے حاصل ہونیوالی آمدنی اور منافع بشمول قدرتی معدنیات کے ذخائر اور دیگر وسائل کو صوبے کے عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے خرچ کرنا ہوگا، روزگار کے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تربیت اور بھرتی کیلئے مقامی لوگوں کو ترجیح دینی چاہئے، صوبے میں حق رائے دہی سے محروم طبقے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے تاکہ وہ شہری اور سیاسی زندگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ ان کی اہمیت کا احساس ہوسکے۔ مقامی اور قومی حکومت دونوں کے انتخابی نظام میں اصلاحات کو ترجیحی طور پر انجام دیا جانا چاہئے تاکہ نوجوانوں مردوں اور عورتوں کو خاص طور پر دیہی علاقوں میں اپنے مقامی معاملات کو چلانے اور انتظام کو فعال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ترغیب دی جائے۔





